رات کے 8 کا وقت طے تھا لیکن میں ذرا تاخیر سے نکلا اور تقریبا آٹھ بیس پہ طے شدہ کیفے میں داخل ہوا۔ وقت اتنا نہیں ہوا تھا لیکن دسمبر شروع ہو چکا تھا اور 5 بجتے ہی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے 11 بج رہے ہیں۔ یہ کیفے ساتھ والی گلی میں ہی تھا لیکن اس سے پہلے کبھی ادھر جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ کیفے میں داخل ہوتے ہی میں نے ایک طائرانہ سی نگاہ ڈالی۔ دائیں طرف ایک بڑی سے میز کے گرد پانچ چھے جرمن بیٹھے تھے۔ تقریبا سب ہی ادھیڑ عمر اور بڑھاپے کے درمیان تھے۔ جس شہر میں میں رہتا ہوں، اس کی زیادہ آبادی اسی رینج میں ہے۔ ذرا آگے ایک چھوٹی میز کے گرد دو لڑکے اور ایک لڑکی بیٹھے تھے۔ میری اجتماعی ہیلو پہ سب نے ایک ساتھ میری طرف دیکھا اور ان تینوں کے علاوہ باقی سب اپنی باتوں میں پھر سے مشغول ہو گئے۔ یعنی کہ مجھے اسی طرف جانا تھا۔ میں نے سب سے باری باری ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کرایا۔ تینوں نے اپنے نام بتائے جو کہ اگلے ہی لمحے مجھے بھول بھی گئے۔ میں نے اپنا کوٹ، مفلر اور اونی ٹوپی اتاری اور ایک کرسی گھسیٹ کر ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ سب میری طرف ہی متوجہ تھے، میں نے بیٹھتے ہی ذرا تفصیل سے اپنے بارے میں بتایا اور ان سے بھی ان کا تفصیلی تعارف دریافت کیا۔ ہم لوگ ایک کمیونٹی کی میٹنگ کے سلسلے میں اکٹھے ہوئے تھے۔ دائیں طرف والا حال ہی میں اپنی تعلیم سے فارغ ہوا تھا اور آجکل کسی کمپنی میں کام کر رہا تھا۔ بائیں طرف والا ایک فیکٹری میں ملازم تھا اور سامنے بیٹھی لڑکی سائیکالوجی میں ماسٹرز کے بعد قریبی شہر میں ملازمت شروع کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ ہم سب انگریزی میں باتیں کر رہے تھے اور وہ تینوں حیران کن حد تک اچھی انگریزی بول رہے تھے۔ اتنی میں کیفے کا مالک میرے قریب آیا اور پوچھا کہ آپ کیا پئیں گے؟ میں نے ٹیبل پہ نظر دوڑائی، دو کے سامنے کافی کے کپ پڑے تھے جبکہ ایک کے سامنے بیئر کی بوتل تھی۔ میں نے کہا ایک کافی لے آئیں۔ کاپوچینو اور دو چمچ شکر کے ساتھ۔ کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے میں نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔ کیفے کو ایک لائبریری کی طرز پہ سجایا گیا تھا۔ ایک طرف کی دیوار پہ کتابوں سے بھری شیلفیں موجود تھیں۔ اور باقی دیواروں پہ مصوری کے نمونے لگے تھے۔ ایک کونے میں پرانا لیکن خوبصورت پیانو رکھا تھا۔ میزوں پہ ننھی ننھی مومبتیاں روشن تھیں۔ کیفے میں ہلکی ہلکی موسیقی گونج رہی تھی جو کہ ماحول کو اور بھی خوابناک بنا رہی تھی۔ موسیقی مشرقی طرز کی تھی، جس میں مخصوص چینی سازوں کی آواز نمایاں تھی۔ ادھر ادھر کی باتوں کے دوران اچانک میوزک تبدیل ہوا اور فضا میں ستار اور ہارمونیئم کی آواز ابھری، میں لاشعوری طور پہ میوزک کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا اور ایک دم خاموش ہو گیا۔ تینوں میری طرف دیکھنے لگے، سامنے بیٹھی لڑکی بولی ”کیا تم یہ گانا جانتے ہو؟“ میں نے انگلی سے اشارہ کیا کہ ایک منٹ۔ اور اتنے میں میری اندازے کے عین مطابق، موسیقی کے درمیان غلام علی کی آواز ابھری ”ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی جو پی لی ہے“۔ میں نے پرجوش سے لہجے میں کہا کہ مجھے کم از کم آج یہ توقع نہیں تھی کہ میں ایک جرمن کیفے میں بیٹھا ہوں گا اور غلام علی کی غزل سنائی دے گی۔ کم از کم کیمنٹس کے اس تقریبا غیر آباد علاقے میں جہاں خود کیمنٹس کے رہائشی بھی شاید نہ آتے ہوں۔ میں اس خوبصورت ماحول میں غلام علی کی آواز میں گم ہونا چاہ رہا تھا لیکن دائیں طرف بیٹھے لڑکے نے سوال کیا کہ کیا یہ گانا رقص کرنے والا ہے؟ ”غزل پہ ہم لوگ رقص تو نہیں کرتے ، ہاں جھومنے کی اجازت ہے۔ “ ”تمہیں کس قسم کی موسیقی پسند ہے؟“ سامنے سے ایک اور سوال آیا۔ ”فی الحال اس سے زیادہ مجھے دنیا میں کچھ اور نہیں پسند!“ میں نے فورا جواب دیا۔
مشرقی جرمنی کے شہر کیمنٹس میں اوائل دسمبر کی سرد، برف سے ڈھکی رات، نیم خوابیدہ ماحول میں گرم کافی کی گھونٹ اور بیک گراؤنڈ میں گونجتی غلام علی آواز۔۔۔۔
مستقل لنک
لکی مین
مستقل لنک
جو منظر آپ نے کھینچا ہے ۔ دل سے بس یہی آواز آتی ہے کاش میں بھی ہوتا وہاں
مستقل لنک
سیم ھئیر
مستقل لنک
اے کاش! خیر آپ لوگ پڑھ کر انجوائے کریں، فی الحال۔
مستقل لنک
آپ کو مے اس سے نہیں مطلب کے بجائے۔۔
ایک جام منگا لینا چاھئے تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔
لسی نہیں ملتی اس کیفے میں؟
مستقل لنک
اور ھمیں کثافت سے دوری کے مشورے
واہ او مولوی فضلو کے جپانی بھگتو
مستقل لنک
کثافت یا ثقافت؟!
لسی نہیں ملتی ناں۔ ہاں انٹروڈیوس کرائی جا سکتی ہے۔۔ ط:
مستقل لنک
او پائی جی
لسی مولوی وئی مست ہو کے پیتا ہے۔
مستقل لنک
بات نکلی تو بہھت دور تلک جاعے گی۔
مستقل لنک
بہت شکریہ تحریر پر تبصرہ کرنے کا۔
ویسے آپ کس بات کی بات کر رہے ہیں؟
مستقل لنک
Diloon ka haal khuda se behtar koy nahi jaanta .
مستقل لنک
بہت بہترین منظر کشی کی ہے ۔
ایسا لگ رہا تھا کہ وہیںپر موجود دیکھ رہے ہیں۔
بہت خوب
مستقل لنک
بہت شکریہ خالد حمید صاحب۔
مستقل لنک
enjoy urself
مستقل لنک
اگر اس میں غزل کی طرز پر مئے اور لڑکی کا کچھ زکر زیادہ ہوتا بجائے کاپوچینو کے تو کچھ اور بھی چس بنتی،
مستقل لنک
وہ کیا کہتے ہیں نقصِ امن کے خطرے کے پیش نظر ذرا بچ بچا کر لکھ دیا۔ ویسے تو ڈیٹیلز بہت تھیں اس ملاقات کی۔ : ) اگر ایک نے رقص کا کہا تو دوسرے نے ترجمے کی بھی فرمائش کی اور تیسری نے پھر مسکرا کر عمل کا بھی تقاضا کیا ہی” ہو گا“ آخر۔۔۔۔
لیکن ہم ٹھہرے کاپوچینو پی کر مست ہونے والے، ہمیں یورپی میل ملاقات کے طریقوں سے کیا۔۔ :پ