برف پہ قدم
پتا نہیں کیا سوچ کر میں نے ہاں کی تھی آئس سکیٹنگ کیلئے۔ جیسے ہی ”بلیڈوں والے بوٹ“ پہن کر کھڑا ہوا، کچھ نہیں ہوا! یہ چینجنگ روم (changing room) تھا اور یہاں مخصوص ربڑ کا فرش بچھا ہوا تھا جس پہ کھڑا ہونا انتہائی اسان تھا۔ بھاری قدم اٹھاتا میں دروازے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھول کے چوکھٹ پکڑ کر باہر کا جائزہ لیا۔ دو تین سیڑھیاں اتر کر آگے برف شروع ہو جاتی ہے اور پھر چند قدم کے فاصلے پہ ایک حصار بنا کر سکیٹنگ کیلئے رِنک (rink) تیار کیا گیا ہے۔ پہلا قدم باہر رکھا اور ۔۔۔۔ بڑی مشکل سے سنبھلا کیونکہ سیڑھیوں پہ ربڑ نہیں تھی۔ سٹیل کی ٹھنڈی یخ ریلنگ کو مضبوطی سے پکڑ کر اگلا قدم اٹھایا۔ ریلنگ کے سہارے میں ایسے نیچے اتر رہا تھا کہ گھنٹے بالکل مڑے ہوئے تھے اور جسم تقریبا زمین کو چھو رہا تھا، جیسے کوئی اپاہج شخص پہلی بار وہیل چیئر سے اٹھ کر سیڑھیاں اترنے کی کوشش کر رہا ہو۔ بچپن میں نصاب کی کتاب میں ایک کہانی پڑھی تھی جس میں زرافے کے پانی پینے کا منظر بیان کیا گیا تھا، میں ہمیشہ اس کہانی کو پڑھ کر اس منظر کو لاشعور میں تخلیق کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک تو اس میں ایسے ایسے مشکل الفاظ تھے اور دوسرے زرافے کے پانی پینے کا انداز پتا نہیں کیسا ہوتا ہے کہ کبھی بھی میں اس کو چشمِ تصور سے ’ریئلائز‘ نہ کر سکا تھا۔ لیکن آج مجھے احساس ہوا کہ شاید وہ منظر کچھ اس قسم کا ہی نظر آتا ہو گا۔ کیونکہ جس انداز میں میرا جسم مڑا ہوا تھا اور میں پھسلنے سے بچنے کی کوشش میں سہارا تھامے ہوئے تھا۔ سیڑھیاں اتر کر اب ریلنگ کو چھوڑ کر آگے رِنک تک جانا تھا، بمشکل تین قدم کا فاصلہ تھا لیکن تین کوس لگ رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست کو دیکھا جو کہ اب تک رِنک کے قریب پہنچ چکا تھا اور اس کی دیوار کا سہارے لے کر آگے بڑھ رہا تھا۔ میں اب بھی ریلنگ کس کے پکڑے ہوئے تھا اور پاؤں احتیاط سے آگے رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب یا تو میں ریلنگ پکڑ کر کھڑا رہتا یا اسے چھوڑ کر آگے بڑھ سکتا تھا، لیکن میں نے ریلنگ کو تو چھوڑنا نہیں تھا، اور قدم بھی آگے رکھنے تھے۔ اب اس کوشش میں میں ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے پاؤں کوئی اور چلا رہا ہے اور ہاتھ کسی اور نے پکڑے ہوئے ہیں!۔ میرے دوست نے مڑ کر دیکھا اور ہنس کر کہا کہ یار ریلنگ کو تو چھوڑ دو۔ میں نے کہا یعنی کہ گِر جاؤں؟ وہ بیچارہ واپس آیا اور میری طرف ہاتھ بڑھا کے بولا کہ وہاں سے ہاتھ چھوڑ کر مجھے پکڑ کر آگے چلو لیکن دھیان سے کیونکہ میں بھی زیادہ مہارت نہیں رکھتا اور وزن نہیں سنبھال سکوں گا۔ وہ دو قدم میں ایسے چلا جیسے پُل صراط پہ چل رہا ہوں۔ تیسرا قدم رکھتے ہی میں نے فورا رِنک کی دیوار کا سہارا لیا اور فاتحانہ انداز میں وہیں کھڑا ہو گیا۔ مڑ کر دیکھا تو برف میں میرے قدموں کے نشان ایسے تھے جیسے کوئی لکڑی کی ٹانگیں گھسیٹ کر یہاں تک آیا ہے۔ دیوار کا سہارا لے کر میں اپنے دوست کے پیچھے پیچھے پاؤں گھسیٹتا رِنک کے داخلی راستے تک آیا۔ اب آگے نرم برف کی جگہ سخت اور پکی برف تھی جسے آئس کہتے ہیں۔ یعنی آئس سکیٹنگ (برف قدمی؟) تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی تھی![مکمل تحریر پڑھیں]