تحریر تک جائیں
پانچواں درویش
  • BrainMasaala
  • اردو
  • رابطہ کریں
  • میرے بارے میں
  • سر ورق

Primary Sidebar

فیس بک گوگل + ٹویٹرای میل کیجئے

بلاگ میں تلاش کیجئے

مقبول ترین

  • علامہ محمد اقبالؒ کی ایک فارسی نظم کا ترجمہ (محاورہ ما بین خدا و انساں)
  • ہم تو مر جائیں گے اے ارض وطن پھر بھی تجھے – محسن نقوی
  • مضمون: میری بھینس
  • آئی ڈونٹ بائے اٹ

تازہ ترین

  • مضمون: میری بھینس
  • قدرت، معاشرہ اور صنفی امتیاز
  • منزل
  • سانسوں کی مالا پہ
  • مریخ کے پانی کی کہانی

Food for thought…

Brain Masaala

مشہور موضوعات

اخباریات اردو زبانیات اسلامیات المانیات انجینئرنگ انٹرنیٹ گردی برین مصالحہ بلاگر اردو ٹیمپلیٹس بلاگستانیات بچپنیات تصاویر درویشی کھاتہ دینیات ذرا سوچئے/سوچ بچاریات سفریات شاعر اور شاعری طنز و مزاحیات فلمیات فن اور فنکاریات قصہ کہانی لالہ موسیٰ متفرق معاشرتیات مہمان پوسٹ ورڈپریس ورڈپریس تھیمز وغیرہ وغیرہ پاکستانیات پردیسیات پنجابیات ڈائری کتابیات کھیل کودنیات گیلری

Ads

اپنی بھینس پہ مضمون لکھیں

مضمون: میری بھینس

عمیر ملک نومبر 14, 2016 4
اپنی بھینس پہ مضمون لکھیں
اپنی بھینس پہ مضمون لکھیں

یوں تو دنیا میں کئی قسم کے جاندار پائے جاتے ہیں لیکن میرا پسندیدہ پالتو جانور بھینس ہے۔ میری پیاری بھینس کا نام دُلاری ہے۔ اس کی عمر 15 سال ہے۔ اس کے دو کان، دو آنکھیں، ایک ناک اور ایک منہ ہے۔ اس کی چار ٹانگیں اور ایک دم بھی ہے۔ میری بھینس صحت مند اور موٹی تازی ہے۔ میری بھینس کی رنگت سیاہی مائل کالی ہے اور اس کے ماتھے پہ سفید دودھیا نشان ہے جو آج کے سُپر مون کی طرح روشن نظر آتا ہے اور اسے تمام بھینسوں میں نمایاں کرتا ہے۔ اس کا قد کاٹھ محلے کی تمام بھینسوں کے مقابلے خوب نکلتا ہوا ہے اور سب لوگ اسے رشک و حسد کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں (اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسے سیاہ رنگ سے نوازا ہے تاکہ حسد بھری نگاہوں سے محفوظ رہ سکے)۔ میری دُلاری کی آنکھیں سیاہ اور چمکدار ہیں۔ جب میں اسے چارہ ڈالتا ہوں تو وہ اپنی لامبی لامبی پلکوں کو اٹھا کر مجھے تشکر بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے تو میرے دل میں اس کیلئے موجود پیار مزید بڑھ جاتا ہے۔
[مکمل تحریر پڑھیں]

قدرت، معاشرہ اور صنفی امتیاز

قدرت، معاشرہ اور صنفی امتیاز

عمیر ملک اپریل 19, 2016 4
 غار مصوری، آسٹریلیا۔ اندازاً پچاس ہزار سال قدیم
غار مصوری، آسٹریلیا۔ اندازاً پچاس ہزار سال قدیم

عورت اور مرد میں صنف کی بنیاد پہ تفریق قدیم ترین انسانی معاشرے کی جڑ ہے۔ معاشرے کی بنیاد دونوں اجناس کے سوسائٹی میں رول ڈیفائن کرنے سے ہی شروع ہوئی یا یوں کہہ لیں کہ معاشرے میں دونوں کے الگ الگ رول ہی اس انسانی سوسائٹی کی بنیاد بنے۔ جس میں مادہ بچوں کی پیدائش کی وجہ سے، عارضی طور پہ ہی سہی لیکن شکار کرنے یا اپنی حفاظت کرنے کے قابل نہیں تھی۔ نر اپنی قوت بازو کے باعث شکار کیلئے باہر نکل سکتا تھا اور یوں جینڈر رولGender Role قدرت نے ڈیفائن کر دیے۔ مادہ پہ کسی بھی نوع کی بقا کا انحصارہوتا ہے اسلئے اسے خطرے میں ڈالنا نا مناسب تھا سو اس کے لئے گھر منتخب ہوا۔ حیاتیات کی رُو سے نر محض زندگی کی بقا میں استعمال ہونے والا ایک آلہ ہے، لہٰذا اسے خطرے میں ڈالنا اور باہر کی دنیا کے سپرد کرنا قابل فہم تھا۔
[مکمل تحریر پڑھیں]

منزل

عمیر ملک مارچ 4, 2016 0
image by @hidlight.deviantart.com

دنیا کی اس بھیڑ میں ملنے والا ہر شخص ایک چلتی پھرتی داستان ہوتا ہے۔ بندہ نکلتا مغرب کیلئے ہے اور قدرت اسے مشرق میں پہنچا دیتی ہے۔ بعض اوقات یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں جانا ہے اور کونسا راستہ صحیح ہے۔ لوگ ملکوں ملکوں کی خاک چھان کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں اور پھر تھک ہار کر اسی کو اپنی منزل قرار دے کر ٹھہر جاتے ہیں۔ انسان اپنے آپ کو تسلیاں ہی دیتا رہ جاتا ہے کہ ہاں، یہی تو میری منزل تھی!
شام کے ڈھلتے سورج کی پھیکی سی روشنی میں ماں کے آنسوؤں اور باپ کے پریشان چہرے سے نظر بچانے کیلئے کبھی اپنا سامان چیک کرتے ہیں، تو کبھی چھوٹے بہن بھائیوں کو نصیحتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ روز بات کروں گا تیرے سے ٹیلیفون پہ، پڑھائی ٹھیک سے کرنی ہے، رو کیوں رہی ہے، تیرے لئے کھلونے بھیجوں گا ناں۔۔۔۔۔۔ اگر کبھی کوئی ٹائم ٹریول کر کے واپس اس لمحے میں جا کر اپنی آوازیں سنے تو یقین نہ کرے کہ یہ سب کچھ کہا تھا میں نے، یہ سب کچھ چھوڑا تھا میں نے، اور کیا پانے کیلئے۔۔۔!۔
گھر کی دہلیز پار کرتے ہی اٹکے ہوئے آنسو بھی دہلیز پار کر جاتے ہیں۔ لیکن آنکھیں صاف کرتے ہوئے چند یاروں دوستوں کے ساتھ ایک دفعہ تو دماغ سے ہر نقش صاف کرکے صرف اور صرف راستے کا نقشہ تازہ کرتے ہیں۔ اور باقی کی ساری زندگی انہی تصویروں اور نقوش کو سوچ سوچ کر، کھرچ کھرچ کر اپنا اندر لہولہان کرتے رہتے ہیں۔

[مکمل تحریر پڑھیں]

نصرت فتح علی خان۔

سانسوں کی مالا پہ

عمیر ملک اکتوبر 13, 2015 3

Nusrat Fateh Ali Khanآج شہنشاہِ قوّالی استاد نصرت فتح علی خان کی 67ویں سالگرہ ہے۔ گوگل پاکستان کے ہوم پیج پہ ان کی یاد میں پہلی بار ڈُوڈل شایع کیا گیا ہے۔

میں اپنی زندگی میں کم ہی ایسے پاکستانیوں سے ملا ہوں، جنہیں نصرت فتح علی خان پسند نہ ہوں۔ بہت سے لوگوں کو قوالی پسند نہیں ہوتی لیکن جب قوال نصرت فتح علی خان ہو، تو شاید ہی کوئی نا پسند کر سکے۔ بچپن میں مجھے قوالی سے سخت چِڑ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب بھی ٹی وی پہ قوالی نشر ہوتی تھی تو سمجھ جاتے تھے کہ کم از کم بھی آدھا گھنٹا تو کچھ اور نہیں لگے گا۔[مکمل تحریر پڑھیں]

مریخ کے پانی کی کہانی

عمیر ملک اکتوبر 1, 2015 3
mars
مریخ۔ (تصویر: ناسا)

نظام شمسی کا چوتھا سیارہ مریخ، زمانہ قدیم سے ہی انسانوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ قدیم مصری تہذیب سے یونانی اور پھر رومی تہذیب میں بھی مریخ داستانوں اور اساطیر کا حصہ رہا ہے۔ مریخ کو ہر چند سال بعد صاف آسمان پر با آسانی دیکھا جا سکتا ہے اور اس کی سرخ رنگت کی وجہ سے قدیم رومیوں کے ہاں اس کو جنگ اور تباہی کے خدا “مارس” کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہی قدیم نام انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں اب بھی موجود ہے اور اسی کی مناسبت سے انگریزی مہینے مارچ کا نام رکھا گیا۔ ♂ یہ نشان بھی مریخ سے وابستہ ہے جو کہ مرد یا مذکر کی علامت ہے۔

دوربین کی ایجاد کے بعد سے ہی مریخ کی سطح کے مختلف نقشے سامنے آتے رہے۔ سولہویں اور ستارہویں صدی عیسوی میں گیلیلیو سمیت کئی لوگوں نے دوربین کی مدد سے مریخ کا مطالعہ کیا۔ مریخ کا مدار کچھ اس طرح سے ہے کہ ہر 16 یا 17 سال بعد مریخ، زمین سے اپنے قریب ترین مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ 19ویں صدی میں ایک اطالوی ماہر فلکیاتجیووانی سکیاپریلی نے دوربین کے ذریعے مریخ کا مطالعہ کیا تو اسے مریخ کی سطح پر دریاؤں یا نہروں کی طرز کے نشانات نظر آئے۔ اس نے ان “نہروں” کو زمین پہ موجود دریاؤں کے نام دیئے۔ بعد میں سکیاپریلی کی یہ نہریں نظر کا دھوکہ قرار دے دی گئیں۔ تاہم 19ویں صدی کے آخر تک یہ نظریہ مقبول عام تھا کہ مریخ پہ نہ صرف پانی اور نباتات موجود ہیں بلکہ انسانی تہذیب کی طرح وہاں ایلین تہذیب بھی موجود ہے۔ اس طرح کے نظریات کو اس دور میں چھپنے والے ناولوں اور کہانیوں نے بھی تقویت دی جن میں ایلین اپنے دم توڑتے بنجر سیارے سے خوراک اور دیگر وسائل کی تلاش میں زمین پر حملہ آور ہوتے دکھائے گئے۔ ایچ جی ویلز کی “وار آف دی ورلڈز” انہی میں سے ایک ہے۔

[مکمل تحریر پڑھیں]

آئی ڈونٹ بائے اٹ

عمیر ملک ستمبر 8, 2015 2

1965 Indo-Pak Warاے پتر ہٹان تے نئیں وکدے۔۔۔ جب بھی یہ نغمہ کانوں میں پڑا ہمیشہ خون میں ایک ابال محسوس کیا۔ جب پنجابی سمجھ آنا شروع ہوئی تو اس کے بول سن کے آنکھیں نم اور دھڑکنیں تیز بھی ہوئیں۔ سکول میں چھے ستمبر کی تقریبات میں حصہ بھی لیا، تقریریں بھی کیں، ٹیبلو بھی پیش کئے۔ آرمی پبلک سکول ہونے کے ناطے اکثر ستمبر کے مہینے میں عسکری نمائش بھی لگتی تھی، جس میں بچے ٹینک وغیرہ میں بیٹھ کر فوجی جوانوں کے ساتھ تصویریں‌بھی بنواتے تھے۔ میں نے بھی یہ شوق پورے کئے۔ پی ٹی وی پہ لگنے والی ٹیلی فلمیں بھی دیکھیں، ضلع گجرات اور گردونواح کے حصے میں نشان حیدر بھی ہیں اس لئے ہمیشہ اس طرح کی ٹیلی فلمیں دیکھ کر سینہ بھی چوڑا ہوتا ہوا محسوس ہوا۔[مکمل تحریر پڑھیں]

ہم تو مر جائیں گے اے ارض وطن پھر بھی تجھے - محسن نقوی

ہم تو مر جائیں گے اے ارض وطن پھر بھی تجھے – محسن نقوی

عمیر ملک اگست 14, 2015 0

محسن نقوی کی ایک خوبصورت نظم یومِ آزادی کے موقع پر سب دوستوں کے نام۔ نظم کو  میری آواز میں سننے کیلئے ساؤنڈ کلاؤڈ پہ کلک کیجئے۔


دوستو پھر وہی ساعت وہی رُت آئی ہے
ہم نے جب اپنے ارادوں کا علَم کھولا تھا
دل نے جب اپنے ارادوں کی قسم کھائی تھی
شوق نے جب رگِ دَوراں میں لہُو گھولا تھا

پھر وہی ساعتِ صد رنگ وہی صُبحِ جُنوں
اپنے ہاتھوں میں نئے دور کی سوغات لیے
محملِ شامِ غریباں سے اُتر آئی ہے
خشک ہونٹوں پہ بکھرتے ہوئے جذبات لیے

[مکمل تحریر پڑھیں]

1 2 … 17 ← آگے

ای میل درج کریں

اپنا ای میل ایڈریس درج کریں اور ای میل کے ذریعے نئی تحاریر کے بارے میں مطلع رہیں۔

Join 1,675 other subscribers

تمام ٹیگز

14 اگست 14august Blogspot Templates blog traffic Chemnitz ciit comsats facebook funny google Iqbal islamabad lalamusa nazm Pakistan SEO urdu wikileaks wordpress اردو اردو زبانیات اردو شاعری اردو ٹیمپلیٹس بلاگر ٹیمپلیٹس بلاگستانیات بلاگسپاٹ اردو ٹیمپلیٹس بچپنیات تجزیے اور تبصرے تصاویر جرمنی سیا ست۔ لالہ موسیٰ شاعری فلم فیس بک قصہ کہانی مزاحیہ معاشرتیات وکی لیکس پاکستان پاکستانیات پردیسی پنجابی ڈائری ڈوڈل آرٹ گوگل

Copyright © 2023. Proudly Powered by WordPress & WebYatri Themes