بچہ جمورا؟
جی استاد!
آنکھیں بند؟
جی استاد!
کیا دیکھا؟
سب کچھ استاد!
بول دے!
نہیں استاد۔۔۔۔
کیوں بچہ جمورا؟
پھوٹ جائے گا۔۔۔
کیا؟
پھانڈا۔۔۔۔۔؟
کس کا؟
سب کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ہاں، سب کا پھانڈا پھوٹ گیا ہے (کچھ پھانڈے تو تقریباٌپھوٹے ہی پڑے تھے) پانچ دن پہلے شایع ہونے والی خفیہ دستاویزات جو کہ افغان وار ڈائری یا دی وار لاگز کے نام سے منظرِ عام پہ لائی گی ہیں۔ سویڈن میں قائم ایک بین الاقوامی آرگنائزیشن ’وِکی لیکس‘Wikileaks نے 25 جولائی 2010ء کو نمایاں اخبارات The Guardian, New York Times اور DerSpiegel سمیت اپنی ویب سائٹ پر لگ بھگ 91 ہزار دستاویزات کا ایک مجموعہ شایع کیا جس میں جنوری 2004ء سے دسمبر 2009ء تک کی افغان جنگ کی روگزاشت موجود ہے۔ دستاویزات جو کہ ‘secret’ کیٹیگری میں آتی ہیں، مختلف فوجی اور ایجنسیوں کے افسران کی لکھی ہوئی ہیں۔ جن میں امریکی فوج کے ’جنگی جرائم‘، انٹیلیجنس معلومات اور مختلف سیاسی ملاقاتوں اور اسی طرح کی دوسری ’وارداتوں‘ کے احوال درج ہیں۔ بقول وِکی لیکس انتظامیہ کے ابھی تقریباٌ 15000 دستاویزات کی اشاعت روک دی گئی ہے تا کہ متوقع ’تقصان‘ کم سے کم کیا جا سکے۔
ارود وی او اے کے مطابق:
وکی لیکس کے منتظمین اپنے ادارے کے مقاصد کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ لوگوں یا اداروں کی جانب سے فراہم کردہ خفیہ معلومات، پوشیدہ رکھی جانے والی یا حساس دستاویزات ان کے نام پوشیدہ رکھتے ہوئے ، منظر عام پر لانے کا کام کرتے ہیں۔
وکی لیکس کی یہ ’لیک‘ اب تک کی جنگی تاریخ کی سب سے بڑی لیک قرار دی جا رہی ہے جبکہ جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ جہاں ان دستاویزات سے امریکہ کیلئے کئی سوالیہ نشان اٹھائے گئے وہیں اس میں پاکستان کے اعلیٰ حکام کی القائدہ اور طالبان سے ملاقاتوں اور ان کی طرف سے طالبان کی حمایت بھی ان میں بیان کی گئی ہے۔ جہاں تک ان دستاویزات کی تصدیق کا تعلق ہے تو اس کی کوئی گارنٹی نہیں اور فراہم کرنے والے کا نام ظاہر نہیں کیا جاتا۔ لیکن وکی لیکس کے مطابق ان کے پاس ایسے کئی رضا کار ہیں جو کئی ممالک میں ان کیلئے دستاویزات اور خبروں کی تصدیق کا کام سر انجام دیتے ہیں۔
وکیپیڈیا کے مطابق ان دستاویزات میں سینکڑوں کی تعداد میں ہونے والی سویلین ہلاکتوں کا انکشاف کیا گیا ہے جو امریکی فوج نے افغان جنگ کے دوران کیں۔ جن میں شہری آبادی پر فضائی حملوں سے لیکر غیر مسلح عوام پر بے دریغ گولیاں برسانے کے انکشافات کئے گئے ہیں۔ دستاویزات میں کئی غیر شایع شدہ یا جانبدارانہ انداز میں لکھی گئی ملٹری رپورٹس کا بھی ذکر ہے۔
پاکستان کی آئی ایس آئی کے سابق چیف حمید گل کی طالبان سے ملاقاتوں اور ان کی طالبان کی حمایت کی رپورٹس پاک-امریکہ تعالقات پہ سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ (جنہیں اوبامہ حکومت نے ان الفاظ میں رد کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہوتا ہے سچا پیار!)
ایران اور شمالی کوریا کو بھی اس لیک میں رگڑا گیا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق فی الحال ان دستاویزات میں اور امریکی فوج کی سرکاری دستاویزات میں کوئی نمایاں فرق نہیں پایا جاتا، ہاں، بعض رپورٹس میں سرکاری اعداد و شمار مشکوک نظر آتے ہیں۔
(یہ مضمون لکھنے کا بنیادی مقصد یہ بتانا ہے کہ میں نے آج ہی اس بارے میں پڑھا ہے ۔ اور سوچا کہ چلو بلاگ کی نذر بھی کر دوں۔ )