دنیا کی اس بھیڑ میں ملنے والا ہر شخص ایک چلتی پھرتی داستان ہوتا ہے۔ بندہ نکلتا مغرب کیلئے ہے اور قدرت اسے مشرق میں پہنچا دیتی ہے۔ بعض اوقات یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں جانا ہے اور کونسا راستہ صحیح ہے۔ لوگ ملکوں ملکوں کی خاک چھان کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں اور پھر تھک ہار کر اسی کو اپنی منزل قرار دے کر ٹھہر جاتے ہیں۔ انسان اپنے آپ کو تسلیاں ہی دیتا رہ جاتا ہے کہ ہاں، یہی تو میری منزل تھی!
شام کے ڈھلتے سورج کی پھیکی سی روشنی میں ماں کے آنسوؤں اور باپ کے پریشان چہرے سے نظر بچانے کیلئے کبھی اپنا سامان چیک کرتے ہیں، تو کبھی چھوٹے بہن بھائیوں کو نصیحتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ روز بات کروں گا تیرے سے ٹیلیفون پہ، پڑھائی ٹھیک سے کرنی ہے، رو کیوں رہی ہے، تیرے لئے کھلونے بھیجوں گا ناں۔۔۔۔۔۔ اگر کبھی کوئی ٹائم ٹریول کر کے واپس اس لمحے میں جا کر اپنی آوازیں سنے تو یقین نہ کرے کہ یہ سب کچھ کہا تھا میں نے، یہ سب کچھ چھوڑا تھا میں نے، اور کیا پانے کیلئے۔۔۔!۔
گھر کی دہلیز پار کرتے ہی اٹکے ہوئے آنسو بھی دہلیز پار کر جاتے ہیں۔ لیکن آنکھیں صاف کرتے ہوئے چند یاروں دوستوں کے ساتھ ایک دفعہ تو دماغ سے ہر نقش صاف کرکے صرف اور صرف راستے کا نقشہ تازہ کرتے ہیں۔ اور باقی کی ساری زندگی انہی تصویروں اور نقوش کو سوچ سوچ کر، کھرچ کھرچ کر اپنا اندر لہولہان کرتے رہتے ہیں۔
چند ہفتے قبل، جمعے کے روز میں یونیورسٹی پہنچا تو کیفےٹیریا میں میرے کلاس فیلو پہلے سے میز کے گرد بیٹھے اسائنمنٹ بنانے میں مصروف تھے۔ اس دن ہماری گروپ پریزنٹیشن تھی اور میرے ساتھ گروپ میں 5 مزید طالبعلم تھے۔ ان میں سے چار انڈیا سے تھے اور ایک ویتنامی تھا۔ صبح کے نو بج رہے تھے اور میں تھوڑا لیٹ ہو گیا تھا۔ دور سے ہی سلام کرتے ہوئے میں نے ایک سرسری سی نگاہ ان سب پہ ڈالی اور جلدی جلدی اپنا لیپٹاپ بیگ سے نکالا اور بیٹھ گیا۔ لیپٹاپ آن کرتے ہوئے میں ان سب کی طرف متوجہ ہوا تو میں نے غور کیا کہ میرے ساتھ والی کرسی پہ ایک انجان شخص سر اپنے بازوؤں پہ رکھے میز پہ جھکا ہوا ہے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور پھر اپنے ایک ساتھی کو دیکھا تو وہ انگریزی میں سرگوشی کے انداز میں کہنے لگا کہ یہ لڑکا تمہارے ملک سے آیا ہے۔ کوئی اسائلم سیکر لگتا ہے۔ ہم بس سٹاپ سے یہاں آ رہے تھے تو ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ہوا اندر آگیا اور یہاں آکر بیٹھ گیا۔ ہماری زیادہ بات نہیں ہوئی اس سے کیونکہ اسے انگریزی نہیں آتی ہے شاید۔ تم بات کرو۔ اس لڑکے نے سر اٹھا کر ہماری طرف دیکھا۔ اس کی عمر لگ بھگ 19 یا 20 سال ہوگی۔ انتہائی دبلا پتلا، سانولا رنگ اور آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے جیسے برسوں کا بیمار ہو۔ میں نے اس کی طرف رخ کیا اور اس سے حال احوال پوچھا۔ وہ تھوڑا جھجک رہا تھا لیکن جب میں نے کہا کہ میں بھی پاکستان سے ہوں تو اس نے بتایا کہ وہ سیالکوٹ کا رہنے والا ہے۔ میں نے پنجابی میں بات کی تو وہ تھوڑا اور ریلیکس ہوا۔ اس دن بارش ہو رہی تھی اور باہر کا درجہ حرارت کوئی 3 سے 5 کے درمیان ہوگا۔ اس نے جینز پہ محض ایک پتلی سی لیدر کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔
میں نے جب یہ پوچھا کہ وہ کس راستے یہاں تک پہنچا ہےتو اس نے جواب دیا کہ اسے معلوم نہیں کہ وہ کس راستے آیا ہے۔ رات کے اندھیرے میں ایجنٹ نے اسے سٹیشن کے پاس چھوڑ دیا تھا اور رات وہ باہر ہی بیٹھا رہا ہے اور صبح یونیورسٹی میں آگیا تھا۔ کہنے لگا کہ جہاں سب جاتے ہیں وہیں جانا ہے مجھے بھی!۔۔۔۔ میں نے زندگی میں پہلے کبھی کسی کی آنکھوں میں اتنی بے بسی اور تھکاوٹ نہیں دیکھی تھی جتنی ان زرد آنکھوں میں تھی۔ میں نے کھانے کا پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔ میں اٹھا اور کمرے میں موجود وینڈنگ مشین سے اس کیلئے ایک کافی کا کپ اور چند مفِن لے آیا۔ اس کے سامنے رکھتے ہوئے میں نے کہا کہ اب میرے لیکچر کا وقت ہو رہا ہے، میں ڈھیڑھ گھنٹے بعد واپس آؤں گا۔ اس کے بعد میں اپنے بھائی سے بات کروں گا، وہ یہیں ہوتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ پناہ کیلئے کہاں جانا ہوگا۔ آپ یہیں اسی کمرے میں میرا انتظار کریں۔ وہ بس میری شکل کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ اس کے زرد چہرے پہ کسی قسم کے کوئی جذبات نہیںتھے۔ بس خالی چہرہ تھا۔ سوا گیارہ بجے کے قریب میں وہاں واپس گیا تو کیفےٹیریا میں تھوڑا بہت رش تھا لیکن وہ کرسی خالی تھی۔ میں نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی لیکن وہ وہاں سے جا چکا تھا۔