میں نے پہلی بار علامہ اقبال کا شعر کب پڑھا؟ جب میں کوئی آٹھ دس سال کا تھا تو میرے چچا کے گھر پرانے اخباروں کا ڈھیر لگا ہوتا تھا کیونکہ وہ اخبار سے بنے کاغذی لفافے بیچا کرتے تھے اور وہ لفافے اکثر گھر میں ہی بنایا کرتے تھے۔ انہی پرانے اخباروں میں ایک بار کوئی کہانی پڑھ رہا تھا، جو کہ عمرو عیار یا ٹارزن ٹائپ کی تھی، جادو نگری، آگ کا کنواں، پرستان وغیرہ ، سب موجود تھے اس میں۔ کہانی کا ہیرو کسی جادوئی سرنگ میں چلا جا رہا ہوتا ہے جو کہ شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہے اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ آخر کار وہ کنارے پر پہنچتا ہے اور دیکھتا ہے کہ آگے ایک گہری کھائی ہے، جہاں گھپ اندھیرا ہے۔ وہ اسی سوچ بچار میں ہوتا ہے کہ کیا کرے، آگے کھائی ہے اور پیچھے شاید اسکی موت تھی۔ وہ اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ کھائی ہے کیسی، تو کھائی کے دہانے پہ ایک شعر لکھا ہوا نظر آتا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشا لبِ بام ابھی
مجھے شک ہوا کہ یہ شاید کسی اور زبان کا شعر ہے۔ میں نے اپنی چچی سے پوچھا کہ یہ کیا لکھا ہوا ہے؟ میری چچی زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں، انہوں نے کہا کہ یہ کوئی اسمِ اعظم لکھا ہوا ہے۔ پہلے زمانوں میں ایسا ہی ہوتا تھا۔۔۔۔ پتا نہیں کیوں مجھے وہ شعر یاد ہو گیا۔ مجھے اس شعرکا ایک لفظ بھی نہیں سمجھ آیا تھا، بلکہ شاید میں ٹھیک سے پڑھ بھی نہیں پایا تھا۔ لیکن میں نے جیسا سمجھا ویسے اس شعر کو یاد کر لیا۔ میرے خیال میں یہ علامہ اقبال کے کسی شعر کے ساتھ میرا پہلا اور غیر متوقع این کاؤنٹر تھا۔ اس کے بعد تو جب بھی میں نے سکول میں کوئی مضمون، تشریح، خلاصہ لکھا ہوگا، اس میں ضرور مس نے علامہ اقبال کا کوئی شعر “فٹ” کروایا ہوگا۔ بہت سے اساتذہ بچوں کو ایسے شعر یاد کروایا کرتے تھے جو کہ ’استاد کا احترام‘ سے لے کر ’موسم بہار کا ایک دن‘ تک سب میں فٹ ہو جاتے تھے۔ ساتوں آٹھویں جماعت میں خودی کو کر بلند اتنا ٹائپ کے شعر ہر بچے کو رٹے ہوتے تھے۔ میں نے کتب بینی کے بارے میں لکھتے ہوئے ایک بار بتایا تھا کہ مجھے اپنے بڑے بہن بھائیوں کی اردو اور اسلامیات کی کتابیں پڑھنے میں بڑا لطف آتا تھا۔ سو میں نے بہت سے شعر پہلے ہی پڑھے ہوتے تھے۔ اور مجھے ہمیشہ انتظار ہوتا تھا کہ کب میں بڑی جماعت میں جاؤں گا اور یہ والے شعر یاد کروں گا۔ انہی دنوں میں گرمیوں کی چھٹیوں میں مجھے پرانی ردی میں سے شکوہ/جوابِ شکوہ کا ایک کتابچہ مل گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں شروع سے لے کر آخر تک لہک لہک کے اونچی آواز میں پڑھتا پھرتا تھا۔ اس کے آخر میں فرہنگ بھی موجود تھی، مجھے لفظ ”فرہنگ“ کا مطلب سمجھ نہیں آیا تھا لیکن یہ پتا چل گیا تھا کہ اس میں مشکل الفاظ کے معانی لکھے ہوتے ہیں۔ اس دن سے لے کر آج تک میں نے جب بھی شکوہ جواب شکوہ پڑھی، میرا دل کیا ہے کہ میں اونچی آواز میں سوز کے ساتھ پڑھوں۔ (ظاہر ہے میں نے ایسا کم ہی کیا)۔ پتا نہیں کیوں مجھے لگتا تھا کہ جیسے مجھے ایک ایک لفظ خود بخود سمجھ آ رہا ہے، اور میں جس لفظ کو جیسے ادا کر رہا ہوں، وہ ایسے ہی ہوتا ہے بلکہ اسے ایسے ہی ہونا چاہیئے۔ یہ خود ساختہ اقبالیات کی پی ایچ ڈی اب بھی کہیں کہیں موجود ہے! میٹرک کے زمانے میں میں نے ایک کوئز شو میں حصہ لیا تھا جو کہ اقبال ڈے کے پروگرام کا حصہ تھا۔ اس کوئز شو کیلئے میں نے اقبال کے بہت سے شعر یاد کئے تھے۔ اب بھی کچھ یاد ہیں۔ لیکن میں نے علامہ اقبال کا شعر شاید ہی کبھی کسی گفتگو میں کوٹ کیا ہو کیونکہ میں ہمیشہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کوئی مجھ سے پوچھ نہ لے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ یہ میں نہیں کر سکتا لیکن۔۔۔۔ ط :
یہ تو تھیں چند غیر ضروری باتیں۔ اب میں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ اشعار جو کہ علامہ اقبال کے نام کے حوالے سے میں نے فیسبک پہ پڑھے اور کبھی آگے شیئر نہیں کئے کیونکہ مجھے ہمیشہ یہ ’فیلنگ‘ آئی کہ یہ اقبال کا نہیں ہے، کیونکہ یہ بہت سادہ اور سمجھ میں آنے والا ہے! میری گزارش ہے کہ اگر کسی کو پتا ہو کہ یہ اشعار اقبال کے ہی ہیں تو ضرور بتائے تا کہ پھر میں بھی بلا جھجک اپنی ”اقبالیات“ لٹانے کی تیاری کروں:
1
۔ مسجد خدا کا گھر ہے، پینے کی جگہ نہیں
کافر کے گھر میں جا، وہاں خدا نہیں
2۔
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی
حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا
3۔
تیرے سجدے تجھے کافر نہ کر دیں اے اقبال
تو جھکتا کہیں اور ہے، سوچتا کہیں اور ہے
4۔
سجدہ عشق ہو تو عبادت میں مزا آتا ہے
خالی سجدوں میں تو دنیا ہی بسا کرتی ہے
یہ اشعار زیادہ تر فیس بک پہ موجود علامہ اقبال کے ”آفیشل“ صفحات پہ بھی شیئر ہوئے ملتے ہیں۔ میں ہمیشہ گوگل پہ اردو میں لکھ کے سرچ مارتا ہوں، اگر کوئی اقبال سائبر لائبریری یا کسی اور مستند جگہ تک لے جائے تو ٹھیک ورنہ پھر آگے بڑھانے سے پرہیز ہی کرتا ہوں۔
مستقل لنک
عمیر، دیباچہ (انٹروڈکشن) تو بہت خوب لکھا، واقعی بہت مزا آیا۔ اشعار میں کافی جگہ رسم الخط (فانٹ) کا مسئلہ ہے شاید۔ حالانکہ میرے پاس پلگ انز اور فانٹس وغیرہ انسٹالڈ ہیں، لیکن آپکے ٹائپ کیے ہوئے تقریبا سب اشعار مکمل ڈسپلے نہیں ہو رہے۔
مستقل لنک
Kya ap ka iqbal se taruf apne angrezi school mai “labpe aati hai” parh k nai tha hoa 😮
مستقل لنک
برادر ۔۔۔۔ درست فرمایا ۔۔۔۔۔ یہ اشعار علامہ صاحب کے ہو ہی نہیں سکتے کیوں زیادہ تر بے وزن اور بحر سے ہی خرج ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
مستقل لنک
اسلام علیکم
میںآپ سے کلی متفق ہوں، اور بھی بہت سے اشعار جو اقبال سے منسوب ہیں گردش میںنظر آتے ہیں ، عوام الناس جسطرح ان اشعار پر داد دیتی دکھائی دیتی ہے پڑھ کر خون کھول اٹھتا ہے۔
فیسبک اور دیگر سائٹس پر ایسے گروپ موجود ہیںجو غلط اشعار کی روک تھام کیلئے مناسب اقدام کر رہیںہیں۔
وسلام
محمدعمرفاروق
مستقل لنک
علامہ اقبال کی شعری کی یہ خصوصیت میں نے بهی نوٹ کی ہے کہ یہ اتنی پر معنی ہوتی ہے کہ آپ اس کے استعمال کی وجہہ سے اپنے مصمون کو بامعنی اور پرکشش بنانے میں بہت مدد کرتی ہے ان کا ایک شعر میں اتنی جمع ہوتا ہے کہ مصمون کا مصمون اس میں پنہا محسوس ہوتا ہے .بہت اچهی لگی آپ کی باتیں …خوش رہیں
مستقل لنک
اقبال کے اشعار ہی پہ کیا موقوف۔ فیس بک اور شوشل میڈئے پہ تو فراز کے چھ ایکسٹرا دیوان سے لے کر اولیا اللہ کے من گھڑت قصوں اور حضرت علی کے اقوال سے لے کر احادیث تک بہت کچھ ”اِن“ ہے
ویسے اقبال کے کافی سارے شعر تو ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی یاد کرا دئے گئے تھے مجھے جیسے ”تو شاہین ہے بسیرا کر“ اور ”خودی کو کر بلند اتنا“ ٹائپ
مستقل لنک
اقبال کا مزاج اور آہنگ ہی پہچانا جاتا ہے۔ اور ایسے اشعار، من گھڑت احادیث، واقعات یا اقوال کے متعلق آپ چیختے رہئے کہ بابا یہ غلط ہے، کوئی سنے گا ہی نہیں۔
مستقل لنک
میرے ایک عزیز جو شاعری کا خوب ذوق رکھتے ہیں اور خود بھی شعر کہتے ہیں، اس بات پر مصر ہیں کہ دوسرے نمبر پر لکھے اشعار اقبال کے ہیں۔۔۔ جبکہ میرا دل نہیں مان رہا۔۔۔ میں 2 دن سے کلیاتِ اقبال کھنگال رہا ہوں کہ شاید کہیں مل جائیں مگر اشعار ندارد۔
انٹرنیٹ پر ایک جگہ یہی اشعار حافظ سے منسوب نظر آئے، جس سے محض تذبذب بڑھا۔
مستقل لنک
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
ہم میں یہ رواج عام پاگیا ہے کہ تحقیق کا دائرہ وسیع کرنے کی بجائے اپنی محدود حقیق پر فیصلہ سنا دیتے ہیں منیب اقبال صاحب علامہ صا حب کے نواسے موجود ہیں فیس بک پر رابطہ فرما کر مزید تحقیق جاری رکهی جا سکتی ہے قبل اس کے فیصلے کو حتمی شکل دے دی جائے
والسلام عبد الناصر عطاری
مستقل لنک
جی یہ اقبال کی نظم جواب شکوہ سے ہیں