وائمار یا ویمر (Weimar) کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک دم ایک بجلی سی لپکتی ہے اور دماغ کی بتی جل اٹھتی ہے لیکن دماغ کا کمرہ خالی پا کر پھر سے بجھ جاتی ہے۔ یہ تو تھی میرے دماغ کی کہانی لیکن تاریخ سے واقفیت رکھنے والوں کیلئے یہ نام نیا نہیں ہے۔ وائمار کا نام جرمن تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ 1918 میں پہلی جنگِ عظیم کے بعد جرمنی میں بادشاہت کے خاتمے کے ساتھ ہی جمہوری دور کی شروعات ہوئی اور وائمار کے مقام پر پہلا جمہوری دستور قلمبند کیا گیا۔ اسی مناسبت سے اس دور کو وائمار ریپبلک یا جمہوریہ وائمار کا نام دیا جاتا ہے۔ گو کہ یہ جمہوری دور زیادہ طویل نہیں تھا لیکن اس دوران جرمنی میں نمایاں معاشرتی، معاشی اور ثقافتی اصلاحات ہوئیں، جو کہ آنے والے دنوں میں بھی برقرار رہیں۔ انتظامی ڈھانچے، سیاست اور ٹیکس نظام سے لیکر منظم ریلوے اور یکساں کرنسی کا اجراء بھی اسی دور کے اہم سنگِ میل ہیں۔ معاشرتی ترقی کے ساتھ ساتھ سائینس اور ٹیکنالوجی میں بھی یہ دور جرمن قوم کیلئے مثالی حیثیت رکھتا ہے۔
اس دور کا اختتام 1930ء میں ہٹلر کی نازی پارٹی کے بڑھتے ہوئے اثرو وسوخ کے باعث شروع ہوا اور آخر کار 1933ء میں باقاعدہ طور پہ ہٹلر کے تھرڈ رائش کا آغاز ہوا۔
یہ تو تھا ان لوگوں کیلئے تعارف جو سیاسی تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ وائمار کا ایک اور پہلو یورپی ادب اور فنون لطیفہ سے جڑا ہے۔ یورپی ادب کی تاریخ میں ”وائمار کلاسیکیت“ (Weimar Classicism) کا دور نہایت اہم دور ہے۔ اس دور کی دو اہم شخصیات گوئٹے اور شیلر سے ادب سے شغف رکھنے والا ہر شخص واقف ہوگا۔ گوئٹے 1775ء میں گرینڈ ڈیوک آف زاکسن – وائمار ، کارل آگسٹ کی دعوت پہ وائمار آ گیا اور پھر اس کے بعد وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ شیلر اور گوئٹے کی ملاقات وائمار ہی میں ہوئی اور انہی دونوں کی بدولت اس دور کو کلاسیک کی حیثیت حاصل ہوئی۔ گوئٹے کی ادبی زندگی میں شیلر کی خاص اہمیت ہے کیونکہ شیلر کے اکسانے پہ گوئٹے نے اپنے کئی نا مکمل کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ شیلر کی موت کے بعد کا زمانہ گوئٹے کے تخلیقی ادب کے عروج کا زمانہ تھا جس میں اس نے شاہکار ڈرامہ فاؤسٹ کا پہلا حصہ تحریر کیا۔ اس کے علاوہ 1819ء میں اسی دور میں گوئٹے نے مشہور ”دیوانِ غربی شرقی“ قلمبند کیا۔ علامہ محمد اقبال نے 1923ء میں اسی کے جواب میں فارسی زبان میں ”پیامِ مشرق“ تخلیق کیا۔ گو ئٹے کا دیوان فارسی کے شاعر حافظ شیرازی سے متاثر ہو کر لکھا گیا تھا اور اس میں جا بجا حافظ کی غزلیاتت، فارسی لوک کہانیوں اور براہ راست قرآن پاک سے مضامین لئے گئے ہیں۔ ایک جرمن غزل/نظم کے چند قطعات پیشِ خدمت ہیں جو ”طلسمان“ کے نام سے ہے۔
Gottes ist der Orient!
Gottes ist der Okzident!
Nord- und südliches Gelände
Ruht im Frieden seiner Hände.Er, der einzige Gerechte,
Will für jedermann das Rechte.
Sei von seinen hundert Namen
Dieser hochgelobet! Amen.Mich verwirren will das Irren;
Doch du weißt mich zu entwirren.
Wenn ich handle, wenn ich dichte,
Gib du meinem Weg die Richte.
جس کا انگریزی ترجمہ کچھ یوں ہے:
GOD’S very own the Orient !
God’s very own the Occident !
The North land and the Southern land
Rest in the quiet of His hand.Justice apportioned to each one
Wills He Who is the Just alone.
Name all His hundred names, and then
Be this name lauded high! Amen.Error would hold me tangled, yet
Thou knowest to free me from the net.
Whether I act or meditate
Grant me a way that shall be straight.
اس کے اردو ترجمے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ کافی حد تک سیلف ایکسپلینیٹری ہے۔
تھک گئے؟!، ابھی تو ایک اور پہلو باقی ہے وائمار کا اور وہ ہے باؤ ہاؤس تحریک۔ یہ تحریک جمہوریہ وائمار کے دور میں شروع ہوئی اور اس کی بنیاد باؤ ہاؤس سکول میں رکھی گئی۔ اس تحریک کا بنیادی عنصر جدیدیت اور نئے تجربات تھا جو کہ اس سے پہلے بادشاہت کے زمانے میں دبا دیئے جاتے تھے۔ اس نے فنون لطیفہ سے لیکر تعمیر اور صنعتی پیداوار تک میں اپنا اثر چھوڑا۔ اس تحریک کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہوئی اور ماڈرنزم کو فروغ ملا۔ اس تحریک نے فنون لطیفہ اور پیداوار و افادیت کو یکجا کرنے کی طرف راغب کیا۔ جس کے نتیجے میں دنیا بھر خصوصآ جرمنی میں کئی شاہکار عمارتیں وجود میں آئیں جو اب بھی اپنے طرز تعمیر میں منفرد ہیں۔ وائمار میں موجود باؤ ہاؤس سکول کو بعد ازاں یونیورسٹی بنا دیا گیا۔
پوسٹ کافی طویل ہو گئی ہے حالانکہ یہ تو میں بس تمہید باندھ رہا تھا اپنے وائمار کے سفر نامے کی۔ اب اگلی قسط میں بغیر کسی تمہید کے بس چند تصاویر اپنے سفر سے متعلق شیئر کروں گا۔ سٹے ود می!
مستقل لنک
بہت خوب عمیر، مجھے خوشی ہے کہ بالآخر آپ اسی نہج پر لکھنے جا رہے ہیں جس کی میں آپ سے جرمنی جانے کے بعد سے توقع کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ جرمنی کی تاریخ اور اپنے پسندیدہ موضوعات کے جرمن پہلوؤں سے ہمیں آگاہ کرتے رہیں گے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
مستقل لنک
بہت شکریہ فہد بھائی۔ کسی حد تک آپ سے انسپائر ہو کر ہی لکھا ہے۔ ورنہ میں تو بس تصاویر کھینچنے ہی جاتا ہوں ایسی جگہوں پہ۔ اس طرح لکھنے سے انسان کو خود پڑھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔
مستقل لنک
جرمنی میں تو نہیں البتہ گوئیٹے صیب سے وی آنا میں ملاقات ہوئی تھی :ڈ
مستقل لنک
مستقل لنک
آپ کی ویب سائٹ بہت اچھی ہیں اور آپ اچھی چیزیں بھی لکھتے ہیں۔ ایسے ہی لکھتے رہیں اور خوش رہیں۔