یوں تو دنیا میں کئی قسم کے جاندار پائے جاتے ہیں لیکن میرا پسندیدہ پالتو جانور بھینس ہے۔ میری پیاری بھینس کا نام دُلاری ہے۔ اس کی عمر 15 سال ہے۔ اس کے دو کان، دو آنکھیں، ایک ناک اور ایک منہ ہے۔ اس کی چار ٹانگیں اور ایک دم بھی ہے۔ میری بھینس صحت مند اور موٹی تازی ہے۔ میری بھینس کی رنگت سیاہی مائل کالی ہے اور اس کے ماتھے پہ سفید دودھیا نشان ہے جو آج کے سُپر مون کی طرح روشن نظر آتا ہے اور اسے تمام بھینسوں میں نمایاں کرتا ہے۔ اس کا قد کاٹھ محلے کی تمام بھینسوں کے مقابلے خوب نکلتا ہوا ہے اور سب لوگ اسے رشک و حسد کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں (اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسے سیاہ رنگ سے نوازا ہے تاکہ حسد بھری نگاہوں سے محفوظ رہ سکے)۔ میری دُلاری کی آنکھیں سیاہ اور چمکدار ہیں۔ جب میں اسے چارہ ڈالتا ہوں تو وہ اپنی لامبی لامبی پلکوں کو اٹھا کر مجھے تشکر بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے تو میرے دل میں اس کیلئے موجود پیار مزید بڑھ جاتا ہے۔
خوبصورتی کے ساتھ ساتھ میری پیاری بھینس خوب سیرت بھی ہے۔ وہ صبح سویرے میرے والدین کے جاگنے سے پہلے ہی جاگ جاتی ہے اور اپنی گردن ہلا کر اس میں موجود گھنٹی کی آواز سے سب کو نماز کیلئے اٹھاتی ہے۔ دن کا زیادہ وقت وہ میری امی کے ساتھ گھر میں گزارتی ہے اور کام کے دوران ان کا دل بہلاتی ہے۔ دُلاری اپنی صحت کا خاص خیال رکھتی ہے اور سادہ غذا کو پسند کرتی ہے۔ اس کی پسندیدہ غذا پالک اور ونڈا ہے لیکن وہ کبھی ناز نخرے سے کام نہیں لیتی اور جو روکھی سوکھی اس کے سامنے رکھیں، خوشی سے کھا لیتی ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتی ہے۔ گھریلو ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سمجھدار بھی ہے اور گھر کی رکھوالی بھی کرتی ہے۔ دروازے کے سامنے اس انداز میں بیٹھتی ہے کہ ہر ایرہ غیرہ اندر داخل نہ ہو سکے۔ دُلاری باقی بھینسوں کے مقابلے میں بہت سنجیدہ طبیعت کی حامل ہے۔ اسی لئے موسیقی میں اس کو صرف قوالی پسند ہے۔ استاد نصرت فتح علی خان اور صابری برادران اس کے پسندیدہ ہیں۔ آج کل کی بے ہنگم موسیقی اسے بالکل پسند نہیں۔ علامہ محمد اقبال اور غالب اس کے پسندیدہ شاعر ہیں۔
دُلاری نہ صرف میری بلکہ میرے گھر والوں کی بھی آنکھوں کا تارہ ہے۔ اس کی سریلی آواز اور گلے میں پڑی گھنٹی کی موسیقی کے بغیر میری صبح نا مکمل ہے۔ مجھے اپنی بھینس پہ فخر ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ میری بھینس کو ہمیشہ سلامت رکھے۔ آمین۔
اتنی سی بات تھی بس، ذرا سی غلطی کیا ہو گئی ممتحن سے، لوگوں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا۔ ایک “سین” اضافی ڈال دیا ایگزامنر نے۔ بھینس پہ مضمون لکھنا تھا۔ کہا بھی تھا کہ جا کر کمرہ امتحان میں کہہ دے کہ “غلطی سے مسٹیک ہو گئی، بھین کی جگہ بھینس پہ مضمون لکھ دو ۔ پورے پندرہ بٹّا پندرہ نمبر آئیں گے۔”
مستقل لنک
bas theek he tha
مستقل لنک
بھائی آپ کی ہی یونیورسٹی نے یہ گُل کھلایا ہے۔ ہم تو بس اس کی خوشبو آگے بڑھا رہے ہیں۔:پ
مستقل لنک
بہت اچھی ہے آپ کی دوچ
مستقل لنک
بھینس کی نسبت تو ہمارے پاس کہنے کو کچھ خاص نہیں۔ یوں بھی کہنے والوں نے قلم توڑ دیا ہے۔ ہم تو بس وضو کر بیٹھے تو سوچا تبصرے کا کفر بھی توڑ ہی دیں۔
نیچے تبصرہ چھوڑیے کا بٹن خوب ہے۔ تبصرے کا تبصرہ، ہوائی کی ہوائی۔ جزاک اللہ خیراً کثیرا۔