آج شہنشاہِ قوّالی استاد نصرت فتح علی خان کی 67ویں سالگرہ ہے۔ گوگل پاکستان کے ہوم پیج پہ ان کی یاد میں پہلی بار ڈُوڈل شایع کیا گیا ہے۔
میں اپنی زندگی میں کم ہی ایسے پاکستانیوں سے ملا ہوں، جنہیں نصرت فتح علی خان پسند نہ ہوں۔ بہت سے لوگوں کو قوالی پسند نہیں ہوتی لیکن جب قوال نصرت فتح علی خان ہو، تو شاید ہی کوئی نا پسند کر سکے۔ بچپن میں مجھے قوالی سے سخت چِڑ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب بھی ٹی وی پہ قوالی نشر ہوتی تھی تو سمجھ جاتے تھے کہ کم از کم بھی آدھا گھنٹا تو کچھ اور نہیں لگے گا۔
کم از کم میرے جیسے بہت سے لوگوں کیلئے قوالی سے باقاعدہ تعارف پی ٹی وی پہ نشر ہونے والی نصرت فتح علی کی قوالیاں یا پھر مختلف دکانوں، بس اڈوں پہ کیسٹوں پہ چلتی صابری برادرز یا دیگر کی قوالیاں ہی تھیں۔ پہلی دفعہ سننے والے کو شاید کبھی بھی قوالی پسند نہ آئے کیونکہ ایک ہی شعر یا مصرع کی تکرار، شروع میں بے وجہ محسوس ہوتی ہے۔ جس طرح بچوں کو بار بار ایک ہی بات دہرا کر سمجھانی پڑتی ہے، قوالی بھی یہی کام کرتی ہے۔ ایک ہی شعر یا مصرع کی تکرار آخرکار سوچ کو اس طرف موڑ ہی دیتی ہے۔ قوالی ہر کسی کا ذوق نہیں بن سکتی، لیکن نصرت فتح علی خان کے سر یہ سہرا جاتا ہے کہ وہ قوالی کو اتنا مین سٹریم پہ لے آئے کہ جسے بالکل بھی پسند نہ ہو وہ بھی نصرت فتح علی خان کی قوالی سے ضرور آشنا ہوتا ہے۔ تقریبا ہر ایک کے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ میں میوزک کے فولڈر میں ایک نصرت فتح علی خان کا فولڈر ضرور ہوتا ہے یا پھر آنلائن بہت سی مختلف پلے لِسٹس میں ایک قوالی کی لسٹ ضرور ہوتی ہے۔
موسیقی کا شائق کبھی نہ کبھی ضرور استاد نصرت فتح علی خان کو تنہائی میں سن کر سوچوں کی وادی میں کھو جاتا ہے جہاں بیک گراؤنڈ میں سُر اور تال کے ساتھ ایک مصرع اس طرح محسوس ہوتا ہے جیسے گرم لوہے پہ چوٹ پڑتی رہے اور ساتھ ساتھ اس کو ٹھنڈا کرنے کیلئے پانی میں غوطے لگائے جائیں لیکن پھر وہی چوٹ کا سلسلہ اصل شکل کو گُم نہ ہونے دے بلکہ مزید پُختہ کرتا جائے۔
ساؤنڈ کلاؤڈ پہ استاد نصرت فتح علی خان کو سنیے اور سر دُھنیے!۔
(یہ تحریردراصل 16 اگست 2015 کو نصرت فتح علی خان کی برسی کے موقع پہ شایع کی گئی تھی۔)
مستقل لنک
درویش جی ۔ آپ نے ایک بہت پرانی کہاوت یا د کرا دی ۔ کہتے ہیں کسی زمانہ میں (1947ء سے قبل) دہلی کے نواب قوالی کا اہتمام کرتے تھے ۔ خواتین بھی پردے کے پیچھے بیٹھ کر قوالی سُنا کرتیں ۔ ایک قوال اپنی لے میں آنے کی تیاری میں سُریں بدل رہے تھے اور یہ بول گاتے جا رہے تھے ”یہ پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے ۔ ہاں یہ پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے ۔ ہاں ہاں یہ پردے کے پیچھے یہ پردے کے پیچھے ۔ یہ کیا ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ “۔ ایک بڑی بی آخر بولے بغیر نہ رہ سکیں ” تیری اماں بیٹھی چھالیہ کاٹ رہی ہے مُوئے“۔
مستقل لنک
بہت اچها تجزیہ پیش کیا
مستقل لنک