متفرق

مادری زبان کا عالمی دن

آج( 21 فروری) ”مادری زبان کا عالمی دن“ ہے۔ سنہ 1952ء میں آج ہی کے دن موجودہ بنگلہ دیش (اس وقت کے صوبہ مشرقی بنگال، پاکستان) کے شہر ڈھاکہ میں یونیورسٹی طلباء نے بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کےحق میں مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کے دوران پولیس نے بے قابو مظاہرین پہ گولیاں چلا دیں، جس کے نتیجے میں چند طلباء جانبحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ یہ وہ وقت تھا جب سابق مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت میں شدید اختلافات چل رہے تھے۔ بنگالی کو اردو کے برابر سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ زوروں پہ تھا اور مرکزی حکومت مسئلے کو حل کرنے میں اگر سنجیدہ تھی بھی تو کم از کم ناکام ضرور رہی تھی۔ [مکمل تحریر پڑھیں]

ایک طویل عرصے کے بعد انگلیوں سے اردو پھسل رہی ہے۔ میرے بلاگ پہ موجود گنتی کی تحاریر میں کوئی ڈیڑھ درجن تو انہی الفاظ سے شروع ہوتی ہیں ” بہت عرصے بعد، کافی دن بعد، کئی ماہ بعد، ایک سال بعد، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔“ اصل میں مَیں اور مجھ جیسے کئی اور اردو بلاگر پارٹ ٹائم بلاگروں کی فہرست میں بھی نہیں فٹ آ سکتے، میں جتنی مرضی کوشش کر لوں تب بھی سال میں کم از کم 6 مہینے میرا بلاگ ”ہائبرنیشن“ (Hibernation) میں گزار دیتا ہے۔ اور جیسے ہی کوئی برساتی یا ترساتی ( برسنا کے برمحل لفظ ترسنا سے ترساتی) موسم آتا ہے تو ڈڈوؤں کی طرح انگلیاں کی بورڈ پہ پھدکنے لگتی ہیں۔ حروف کے انڈوں میں سے الفاظ کے ہزاروں ”ٹیڈ پول“ (Tadpoles) جنم لیتے ہیں لیکن ان ہزاروں میں سے چند سو ہی بلاگ کے کنارے پہنچ کر تحریر کی شکل میں جوان ہوتے ہیں۔[مکمل تحریر پڑھیں]

پچھلے دنوں ابو شامل نے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو کی ترویج کیلئے ایک ایسے اردو انسٹالر کی ضرورت کا ذکر کیا تھا جو صرف چند کلکس میں کسی بھی کمپیوٹر کو اردو لکھنے اور پڑھنے کیلئے موزوں بنا دے۔ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ونڈوز میں اردو فعال کرنا، پھر کی بورڈ لے آؤٹ اور پھر مناسب سے فونٹس ڈالنا۔۔۔ یہ سب کام ایسے شخص کیلئے تو کوئی مشکل نہیں ہیں جو کمپیوٹر پروگرامر ہو یا پرانا اردو بلاگر ہو یا کم از کم اردو اخبارات یا ویب سائیٹس وزٹ کرتا ہو۔ ان کے علاوہ باقی افراد کو سارا عمل بتانے سے بہتر ہوتا ہے کہ انہیں یہ سب خود کر کے دے دیا جائے۔۔۔۔!
میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کی بات کروں تو 70 فیصد یہ نہیں جانتے کہ کمپیوٹر پر اردو لکھی جاتی ہے۔ حالانکہ سارا دن وہ انٹرنیٹ، فیس بک، موبائل وغیرہ پہ رومن اردو لکھ لکھ کر تھکتے نہیں لیکن ’اردو‘ کے بارے کچھ نہیں پتا ہوتا۔ اس کی بڑی وجوہات کے بارے میں ابو شامل اپنی پوسٹ میں تفصیل سے لکھ چکےہیں، جو کہ صد فیصد درست ہے۔ میرے کئی ایسے دوست ہیں جو کہ انگریزی زیادہ نہیں جانتے لیکن کسی نہ کسی ضرورت کے باعث یا محض تفریح کیلئے کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں۔ اکثر مجھے ان کے پیغام موصول ہوتے ہیں کہ یار فلاں لفظ کی اردو بتا دو، فلاں کی انگریزی بتا دو۔۔۔ اگر وہ اردو لکھنے کے بارے میں جانتے ہوں تو خود ڈھونڈ سکتے ہیں اور مزید معلومات بھی پڑھ سکتے ہیں جو کہ ظاہر ہے اگر اردو میں سرچ کی جائے تو اردو کے روا بط کی صورت میں مل سکتی ہے۔ مثال کے طور پر میرے بڑے بھائی بہت عرصے سے کمپیوٹر کے صارف ہیں اور انہیں بنیادی کمپیوٹر آپریٹنگ آتی ہے لیکن انہیں یہ نہیں معلوم کہ اگر اردو میں سرچ کیا جائے تو اردو میں بھی معلومات مل جائے گی۔ میری یہ عادت ہے کہ میں اگر میں ویکیپیڈیا پہ کچھ (انگریزی میں) سرچ کروں تو اس کا اردو صفحہ ضرور دیکھتا ہوں اگر ہو تو۔۔ میرے بھائی نے ایک دو دفعہ جب یہ دیکھا کہ اردو میں بھی معلومات کا بہت سا ذخیرہ ویب پر موجود ہے تو وہ حیران ہوئے کہ انہیں اس بارے میں نہیں معلوم تھا۔ اب وہ اکثر ہی اردو ویکیپیڈیا پہ اردو صفحات دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اگر میں نے کچھ انگریزی میں بھی کھولا ہو تو فورآ کہتے ہیں کہ یار اردو میں دیکھ لو ناں، تا کہ ہمیں بھی کچھ سمجھ آ جائے ساتھ ساتھ۔۔۔۔ یعنی کہ بنیادی مسئلہ اردو کی انٹرنیٹ اور کمپیوٹنگ میں مناسب پروموشن ہے۔ جس کیلئے بہرحال سب کو ہی کوشش کرنی چایئے۔
اور اس اہم کام کا ایک سنگ میل ہے پاک اردو انسٹالر جو کہ چند کلکس میں آپ کے کمپیوٹر کو اردو کیلئے تیار کر سکتا ہے۔ اس کیلئے م بلال م ، جو کہ پہلے ہی اردو اور کمپیوٹر وغیرہ کے متعلق کافی نمایاں خدمات انجام سے چکے ہیں، کا بہت بہت شکریہ۔
اس پوسٹ کا مقصد صرف یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کی اس انسٹالر تک رسائی ممکن بنائی جا سکے تا کہ وہ آسانی سے اردو میں لکھ پڑھ سکیں۔
پاک اردو انسٹالر ڈاؤنلوڈ کریں۔

دَھوانے سے تربوز تک

گئے زمانوں کی بات ہے کہ گرمیوں کے آتے ہی بازاروں میں ریڑھیوں، ٹھیلوں اور تھڑوں پہ بڑے بڑے، ہرے ہرے تربوزوں کی بہار آ جاتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے لنڈا بازار لگ گیا ہے تربوزوں کا۔ ہر طرف ” جیہڑا پٹو لال اے” کی آواز آتی تھی، اور کسی ایک کی بات کا بھی یقین نہیں آتا تھا! خود جا کے تین چار تربوز اٹھا کے، دیکھ بھال کے “ٹک” لگا کے ‘لال پن’ چیک کیا جاتا تھا اور پھر سودا مکایا جاتا تھا کہ یہ لو دو “دھوانوں” کے دس روپے اور وہ چھوٹا والا چونگے میں دو۔۔۔۔ یہ بات کوئی سن صفر کے زمانے کی نہیں ہے، مجھے بھی یاد ہے کہ دس کے دو تو مل ہی جایا کرتے تھے۔ بچپن میں مجھے کبھی بھی تربوز زیادہ پسند نہیں آتے تھے، سارے ہاتھ گیلے، بعد میں چِپ چِپ، جہاں کھاؤ وہ جگہ بھی گیلی۔۔۔اور مکھیوں کا میلہ الگ۔۔۔۔ اوپر سے اتنی بڑی بڑی کاش کاٹ کر دیتے تھے کہ کھاؤ تو گالوں تک منہ دھونا پڑے، ساتھ ساتھ یہ بھی سنتے جاؤ کہ خبردار جو اب پانی پیا تو۔۔۔ہیضہ ہو جائے گا، یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔ کیوبز کاٹ کے کانٹوں سے کھانے کا فیشن ذرا لیٹ آیا تھا۔ بازاروں میں جا بجا مکھیوں کی کالونیوں کے سائے میں چھلکوں اور ادھ کھائے تربوزوں کا ڈھیر۔ چلتے چلتے پیاس لگی، ایک دھوانا لیا اور گوڈے پہ رکھ کُہنی ماری، ہاتھ سے کھایا، جتنا کھایا ٹھیک باقی وہیں چھوڑ چھاڑ، یہ جا وہ جا۔۔۔۔

اب ذرا نئے زمانے کی بات کرتے ہیں: جمعے کا دن لیکن بازار میں ٹھیلوں پہ اکا دکا ہی نظر آ رہے ہیں، چلو جی، ہو سکتا ہے موسم نہیں آیا ابھی۔ یہ رہے! واہ! جی کس طرح دے رہے ہیں بھائی صاحب؟
آپ بتائیے کونسا تول دیں؟
یہ والا۔۔۔۔
ہممم۔۔۔۔ پونے چار کلو کا ہے، ڈھائی سو ہو گئے!!!
ہائیں!
چلیں آپ دو سو چالیس دے دیں۔۔۔
نہیں نہیں، یہ تو بہت زیادہ ہیں۔ یہ ذرا چھوٹے والا تول دیں۔۔
ہممم،۔۔۔ اس کے آپ ایک سو تیس دے دیں۔
یار انڈے سے تھوڑا بڑا ہی تو ہے۔۔۔۔۔ خیر! یہ لو۔
بھائی صاحب! لال کی گارنٹی ہے۔ یہ دیکھیں۔

یہ تھا ایک دوکاندار کے ساتھ مکالمہ برائے بازیابئ یک عدد تربوزاں بقیمتِ ارزاں! ۔
اب کون دو دو سو کے تربوز گوڈے پہ رکھ کُہنی مار کے پٹے گا۔۔۔۔؟
کہاں تو نہر پہ یار دوستوں کے ساتھ جا کے تقریبآ مفت کی “دھوانا پارٹی” ہو جاتی تھی۔۔۔ اب کون 1ہزار روپے کے چار خرید کر انہیں نہر کے پانی میں لگائے گا۔۔۔؟
اب تو ڈاؤلینس میں ٹھنڈے کئے جائیں گے، کیونکہ ڈاؤلینس ریلائبل ہے!۔

سنتے تھے کہ باہر کے ملکوں میں آم کی ایک ایک کاش ڈالروں میں بِکتی ہے۔۔۔۔ ان کا تو پتا نہیں، ہمارے تربوز ضرور اب ‘پھاڑیوں’ کے حساب سے بِکا کریں گے۔ دس روپے کی تو وہ اوپر والی “ٹک زدہ” تکونی کاش ملا کرے گی۔ یعنی کہ اب دھوانا ایک تعلیم یافتہ، مہنگا اور امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ والا فروٹ بن گیا ہے، اب دَھوانا واقعی تربوز بن گیا ہے۔۔۔۔۔!۔

نوٹ: ہو سکتا ہے کہ مجھے ہی مہنگائی آج محسوس ہوئی ہو۔ کیونکہ میں تربوز کو کوئی اعلیٰ نسل کا فروٹ شمار نہیں کرتا تھا۔ حالانکہ اس کا نام بڑا فارسی فارسی سا لگتا ہے۔
اور جو میں نے پرانے وقتوں کے حالات لکھے، وہ میرے دور کی بات نہیں۔ میرا دور اس کے بعد کا ہے اور ابھی جاری ہے۔ آخری یاد داشت اس وقت کی ہے جب تقریبا 10 یا 20 کا ایک تو مل ہی جاتا تھا کیونکہ کافی عرصے بعد تربوز خریدنے کا اتفاق ہوا۔ اس کی وجہ اسلام آباد میں اور ہاسٹل کے تقریبا ممی ڈیڈی ماحول میں قیام ہے۔

تمام قارئین، حاضرین، ناظرین، متاثرین ۔۔۔۔ سب کو میرا عاجزانہ سلام!
مجھے پوری نہیں تو آدھی امید تو ہے کہ آپ مجھے بھول گئے ہوں گے جیسے کہ میں۔۔۔۔ اپنے بلاگ کا یوزرنیم ہی بھول گیا تھا۔۔۔۔! جو نہیں بھولے ان کا شکریہ۔۔۔ جو بھول گئے ان کو ملامت!!
اس طویل غیر حاضری کی وجہ انجینئرنگ کی آخری ششماہی تھی۔ پڑھنا پڑھانا تو خیر کیا ہوتا ہے، بس ذرا ششکے کے طور پہ بلاگ کو ’سیڈے‘ لگا دیا تھا۔ اب تو فارغ التحصیل ہوئے اور خیر سے بر سر بے روزگار ہوئے بھی ایک ماہ ہونے کو ہے۔ اس عرصے کے دوران دوسری تمام بلاگی سرگرمیوں سے بھی کنارہ کئے رکھا۔ ہاں، فیس بک پہ جلوہ افروزیاں جوں کی توں برقرار تھیں اور ہیں۔ :پ
آج ایک دوست کی نئی نئی ویب سائٹ دیکھی تو دل میں خیال آیا کہ ہمارا بھی ایک بلاگ ہے۔۔۔۔ شیخیاں بگھارنے کو پتا درج کیا تو لاگ ان کا صفحہ آیا۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے لیپٹاپ پہ ونڈوز ری نِیو کرنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔۔ ڈگری مکمل ہوتے ہی لیپٹاپ کو غسلِ فراغت دیا تھا، لہٰذا تمام محفوظ شدہ پاسورڈ شاسورڈ مٹا دیئے تھے۔ اب اپنے سارے نام لکھ لکھ کے دیکھ لئے اور پاسورڈ میں بھی ’ سب‘ کوڈ ورڈز لگا لئے۔۔ لیکن کوئی شنوائی نہیں۔۔۔ فیس بک پہ محترم مولانا ڈفر صاحب ڈی والے نے بتایا کہ یوزرنیم تو ایڈمن ہوتا ہے نا۔۔۔۔ :)
بس پھر سب کچھ ایک دم سے ذہن میں آ گیا۔ اس کارِ خیر کیلئے میں ڈفر اور محترم منیر عباسی صاحب کا بھی مشکور ہوں، جنہوں نے مدد کی، اور یاسر جاپانی کا بھی۔۔ انہوں نے’ ٹرائی ٹرائی اگین‘ کا نادر مشورہ مفت دیا۔
اس پوسٹ کو یہیں پہ ختم کرتے ہیں اور آئیندہ آنے کی امید کے ساتھ ولسلام!