اس تحریر پر 6 تبصرے کئے گئے ہیں


  1. محترم بات اتنی سی ہے
    پہلے والدين اور اساتذہ بچوں کو بتاتے تھے “يہ پاکستان ہمارا ملک ہے ۔ ہم نے اس کی خدمت کرنا ہے تاکہ يہ دنيا ميں ستارہ بن کے چمکے”
    وہ والدين اور اساتذہ جاہل تھے يا کم پڑھے لکھے تھے

    اب لوگ پڑھ لکھ گئے ہيں ۔ سائنس ترقی کر گئی ہے ۔ اسلئے لوگ اپنے بچوں کو بتاتے ہيں “پاکستان ميں کيا رکھا ہے ۔ يہاں سب چور ہيں ۔ امريکا جاؤ ۔ برطانيہ جاؤ ۔ اور کہيں چلے جاؤ ۔يہاں رہے تو پچھتاؤ گے”
    سب تو پاکستان سے باہر جا نہيں سکتے مگر اتنا تو کرتے ہيں کہ باہر کی طرف حست بھری نگاہوں اور بوجھل دل سے ديکھتے ہيں
    اللہ ان عقل سے فارغ لوگوں کو عقلِ سليم عطا فرمائے تاکہ ديکھ سکيں کہ يہ اُس ٹہنی کو جڑ سے کاٹ رہے ہيں کہ جس پر وہ خود بيٹھے ہيں

    Reply

    1. بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی!
      بات اتنی سی ہے کہ لوگ بھی مجبور ہو چکے ہیں۔۔ اس میں وطن کا قصور نہیں لیکن اگر اتنا پیسا لگا کے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کہیں ان کو کام نہیں ملے گا تو اس میں ان کا کیا قصور ہے!

      Reply

افتخار اجمل بھوپال کو جواب دیں جواب ترک کریں

بے فکر رہیں، ای میل ظاہر نہیں کیا جائے گا۔ * نشان زدہ جگہیں پُر کرنا لازمی ہے۔ آپکا میری رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، لیکن رائے کے اظہار کیلئے شائستہ زبان، اعلیٰ کردار اور باوضو ہونا ضروری ہے!۔ p: