سب سے پہلے تو میری جانب سے آپ سب کو جشنِ آزادی مبارک!
بہت زمانے کی بات ہے جب ہم پرائمری میں ہوا کرتے تھے تو پتا نہیں کس جماعت کی اردو کی کتاب میں ایک کہانی تھی جو 14 اگست کے حوالے سے تھی، مجھے اس کا عنوان یاد نہیں شاید “آزادی” ہی تھا۔ اس کہانی یا بلکہ مضمون یا سبق زیادہ مناسب لفظ ہے، میں ایک بچہ جب صبح اٹھتا ہے تو کیلنڈر پہ 14 کا ہندسہ سرخ رنگ میں دیکھ کر اپنی امی سے پوچھتا ہے کہ یہ سرخ رنگ میں کیوں لکھی ہے۔ اور پھر اس بچے کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی پتا چلا کہ 14 اگست یومِ آزادی کا دن ہے (جی ہاں! یہ جملہ دانستہ غلط لکھا گیا ہے) ۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے تک تو صبح اٹھتے تھے، چھت پہ جاتے تھے تو ہر گھر کی چھت پہ جھنڈے اور جھنڈیاں لگی ہوتی تھیں۔ میں اور میرے بھائی یکم اگست سے ہی اپنی ساری جمع پونجی جھنڈیاں خریدنے میں لگایا کرتے تھے۔ پھر ان جھنڈیوں کو مختلف قسم کی ‘لئی’ یا گوند وغیرہ سے یا اگر کچھ نہ ملے تو آٹے کو پانی میں گھول کر دھاگے پہ لگایا کرتے تھے، سارا دن سوکھنے کے بعد اس کو اتار کر احتیاط سے تہہ کر کے رکھا جاتا تھا چودہ اگست کیلئے۔ اب اس سارے عمل یا عملیات کا مقصد کیا ہوتا تھا۔۔۔ ؟ کیا کہا؟ ۔۔۔ پیسے اور وقت کا ضیاع! شاید آپ نے ٹھیک کہا لیکن اس پیسے اور وقت کے زیاں سے ہمیں ایک خوشی ملتی تھی، اطمینان ملتا تھا اور فخر محسوس ہوتا تھا کہ اس دفعہ چودہ اگست پہ ہمارا گھر سب سے بہترین سجا ہو گا۔ انتظار ہوتا تھا اس دن کا، صبح سویرے اٹھا جاتا تھا، سارا دن اس جھنڈے اور جھنڈیوں کو مسکرا مسکرا کر دیکھا جاتا تھا اور دل ہی دل میں خود ہی اس کی بلائیں لیتے تھے کہ
چاند روشن چمکتا ستارہ رہے
سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے
اچھا اچھا، ٹھیک ہے، یہ ملی نغمہ یاد نہیں آتا تھا اس وقت ہمیں، بس یہ ذہن میں ہوتا تھا کہ یہ ٹھیک سے لہرا کیوں نہیں رہا، یہ جھنڈیاں گیلی تو نہیں ہو گئیں کہیں، ساتھ والوں نے اتنی جھنڈیاں کہاں سے لے لیں، کہیں ہماری تو نہیں چوری کیں وغیرہ وغیرہ۔۔!
لیکن بچپن کی بہت سی ‘حرکتوں’ کی وجہ ہمیں بچپن کے بعد ہی سمجھ آتی ہے۔ اور میں آج یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان معصوم سی خوشیوں، مسکراہٹوں، دوستیوں اور دشمنیوں کا ضرور کوئی نہ کوئی Hidden مقصد تھا جو بعد میں ہی پتا چلتا ہے۔
اور اب آتے ہیں موجودہ وقت میں، کہیں بھی ایسا جوش نظر نہیں آ رہا، یعنی لوگ/ بچے اب زیادہ سمجھدار ہو گئے ہیں اور وہ پیسے اور وقت کا ضیاع نہیں کرنا چاہتے۔ بلکہ اصل میں تو وہ کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے۔۔۔ بس اپنے ٹی وی کی سکرین پہ کارٹون دیکھنا چاہتے ہیں۔ بس آئی فون پہ فروٹ ننجا کھیلنا چاہتے ہیں۔ بس ۔۔۔۔۔
وقت وقت کی بات ہے!
اس تحریر پر 6 تبصرے کئے گئے ہیں
تبصرہ کیجئے
پچھلی تحریر: ڈاک ٹکٹ
اگلی تحریر: بابائے اردو – مولوی عبدالحق
مستقل لنک
محترم بات اتنی سی ہے
پہلے والدين اور اساتذہ بچوں کو بتاتے تھے “يہ پاکستان ہمارا ملک ہے ۔ ہم نے اس کی خدمت کرنا ہے تاکہ يہ دنيا ميں ستارہ بن کے چمکے”
وہ والدين اور اساتذہ جاہل تھے يا کم پڑھے لکھے تھے
اب لوگ پڑھ لکھ گئے ہيں ۔ سائنس ترقی کر گئی ہے ۔ اسلئے لوگ اپنے بچوں کو بتاتے ہيں “پاکستان ميں کيا رکھا ہے ۔ يہاں سب چور ہيں ۔ امريکا جاؤ ۔ برطانيہ جاؤ ۔ اور کہيں چلے جاؤ ۔يہاں رہے تو پچھتاؤ گے”
سب تو پاکستان سے باہر جا نہيں سکتے مگر اتنا تو کرتے ہيں کہ باہر کی طرف حست بھری نگاہوں اور بوجھل دل سے ديکھتے ہيں
اللہ ان عقل سے فارغ لوگوں کو عقلِ سليم عطا فرمائے تاکہ ديکھ سکيں کہ يہ اُس ٹہنی کو جڑ سے کاٹ رہے ہيں کہ جس پر وہ خود بيٹھے ہيں
مستقل لنک
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی!
بات اتنی سی ہے کہ لوگ بھی مجبور ہو چکے ہیں۔۔ اس میں وطن کا قصور نہیں لیکن اگر اتنا پیسا لگا کے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کہیں ان کو کام نہیں ملے گا تو اس میں ان کا کیا قصور ہے!
مستقل لنک
دُرست
مستقل لنک
مستقل لنک
میں نے کبھی کسی تبصرے میں اپنی کسی پوسٹ کا ربط نہیں دیا لیکن آپکی اِس تحریر کے جواب میں میرے پاس وہ ربط دینے علاوہ، مزید کچھ خاص کہنے کو نہیں:
http://adilbaiya.blogspot.com/2011/08/blog-post.html
مستقل لنک
پڑھی تھی میں نے کل۔۔۔۔
کیہ کریئے اسی!