دنیا کا پہلا ڈاک ٹکٹ penny black کو کہا جاتا ہے جو کہ 1840ء میں برطانیہ نے جاری کیا۔ اس ڈاک ٹکٹ پہ نوجوان ملکہ وکٹوریہ کی تصویر تھی۔ جب ڈاک کا نظام رائج ہوا اور ڈاک کی قیمت کی وصولی کیلئے ٹکٹوں کا اجراء کیا گیا ، اسی وقت سے ٹکٹ جمع کرنے کا مشغلہ وجود میں آیا۔ ٹکٹ جمع کرنا مقبول مشاغل میں سے ایک ہے۔ ڈاک ٹکٹوں کے بارے میں تحقیق کرنے کو یا اس سے متعلقہ علم کو Philately کہتے ہیں۔ یہ علم ٹکٹ جمع کرنے کے علاوہ ہے اور ضروری نہیں کہ ہر جمع کرنے والا ٹکٹ دان یا Philatelist بھی ہو، اس کا الٹ بھی ضروری نہیں۔ اب اس مشغلے میں کمی آ چکی ہے تاہم اب بھی لوگ ٹکٹ جمع کرتے ہیں اور کافی وسیع ذخائر رکھتے ہیں۔ میرے بڑے بھائی کو بھی اپنے بچپن کے زمانے میں ٹکٹ اور سکے جمع کرنے کا شوق تھا۔ ہمارے گھر بار کے لحاظ سے اس طرح کے مشاغل قطعی طور پہ وقت اور پیسے کا زیاں سمجھے جاتے تھے، اسلئے ان کا یہ مشغلہ ایک عرصے تک خفیہ ہی رہا۔ ہم نے اپنے پچپن میں کبھی انہیں ٹکٹ جمع کرتے نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اس بارے میں کوئی علم تھا۔ جب آج سے کوئی دس بارہ سال پہلے ہم نے اپنا مکان تبدیل کیا تو ان کا یہ ”خزانہ“ منظرِ عام پہ آیا۔ بڑوں کو تو اس بارے میں علم تھا لیکن ہم بچوں کو نہیں پتا تھا کہ جس مشغلے پہ ہم نے بس مضامین ہی لکھے ہیں وہ ہمارے اپنے گھر میں بھی موجود تھا۔ ان کا یہ ذخیرہ سب سے زیادہ میری توجہ کا مرکز بنا اور میں اپنے سکول میں ہونے والی ایک نمائش میں ان کی سٹاک بکس لے گیا اور اپنے نام پہ داد وصول کی۔
ان کا یہ ذخیرہ کچھ اتنا بڑا نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس مشغلے کو زیادہ وقت دے سکے تھے اور پھر انہوں نے کام کاج کے سلسلے میں پڑنے کے بعد بالکل ہی چھوڑ دیا تھا۔ یہ شوق گھر میں کسی اور کو نہیں تھا اس لئے آہستہ آہستہ اس ذخیرے کی وسعت میں کمی آتی گئی کہ صفائی یا نقل مکانی کے دوران ایک دو ٹکٹ نکل کے گر جاتے اور ضائع ہوتے رہے۔ ان کے سِکوں کے ذخیرے کو میں نے ایسا سنبھال کے رکھا کہ مجھے خود اس کے بعد وہ نہیں ملے، پتا نہیں کہاں رکھ کے بھول گیا۔۔۔!
ان کی ٹکٹ سٹاک بک سے کچھ تصاویر یہاں لگا رہا ہوں۔
مستقل لنک