گئے زمانوں کی بات ہے کہ گرمیوں کے آتے ہی بازاروں میں ریڑھیوں، ٹھیلوں اور تھڑوں پہ بڑے بڑے، ہرے ہرے تربوزوں کی بہار آ جاتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے لنڈا بازار لگ گیا ہے تربوزوں کا۔ ہر طرف ” جیہڑا پٹو لال اے” کی آواز آتی تھی، اور کسی ایک کی بات کا بھی یقین نہیں آتا تھا! خود جا کے تین چار تربوز اٹھا کے، دیکھ بھال کے “ٹک” لگا کے ‘لال پن’ چیک کیا جاتا تھا اور پھر سودا مکایا جاتا تھا کہ یہ لو دو “دھوانوں” کے دس روپے اور وہ چھوٹا والا چونگے میں دو۔۔۔۔ یہ بات کوئی سن صفر کے زمانے کی نہیں ہے، مجھے بھی یاد ہے کہ دس کے دو تو مل ہی جایا کرتے تھے۔ بچپن میں مجھے کبھی بھی تربوز زیادہ پسند نہیں آتے تھے، سارے ہاتھ گیلے، بعد میں چِپ چِپ، جہاں کھاؤ وہ جگہ بھی گیلی۔۔۔اور مکھیوں کا میلہ الگ۔۔۔۔ اوپر سے اتنی بڑی بڑی کاش کاٹ کر دیتے تھے کہ کھاؤ تو گالوں تک منہ دھونا پڑے، ساتھ ساتھ یہ بھی سنتے جاؤ کہ خبردار جو اب پانی پیا تو۔۔۔ہیضہ ہو جائے گا، یہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔ کیوبز کاٹ کے کانٹوں سے کھانے کا فیشن ذرا لیٹ آیا تھا۔ بازاروں میں جا بجا مکھیوں کی کالونیوں کے سائے میں چھلکوں اور ادھ کھائے تربوزوں کا ڈھیر۔ چلتے چلتے پیاس لگی، ایک دھوانا لیا اور گوڈے پہ رکھ کُہنی ماری، ہاتھ سے کھایا، جتنا کھایا ٹھیک باقی وہیں چھوڑ چھاڑ، یہ جا وہ جا۔۔۔۔
اب ذرا نئے زمانے کی بات کرتے ہیں: جمعے کا دن لیکن بازار میں ٹھیلوں پہ اکا دکا ہی نظر آ رہے ہیں، چلو جی، ہو سکتا ہے موسم نہیں آیا ابھی۔ یہ رہے! واہ! جی کس طرح دے رہے ہیں بھائی صاحب؟
آپ بتائیے کونسا تول دیں؟
یہ والا۔۔۔۔
ہممم۔۔۔۔ پونے چار کلو کا ہے، ڈھائی سو ہو گئے!!!
ہائیں!
چلیں آپ دو سو چالیس دے دیں۔۔۔
نہیں نہیں، یہ تو بہت زیادہ ہیں۔ یہ ذرا چھوٹے والا تول دیں۔۔
ہممم،۔۔۔ اس کے آپ ایک سو تیس دے دیں۔
یار انڈے سے تھوڑا بڑا ہی تو ہے۔۔۔۔۔ خیر! یہ لو۔
بھائی صاحب! لال کی گارنٹی ہے۔ یہ دیکھیں۔
یہ تھا ایک دوکاندار کے ساتھ مکالمہ برائے بازیابئ یک عدد تربوزاں بقیمتِ ارزاں! ۔
اب کون دو دو سو کے تربوز گوڈے پہ رکھ کُہنی مار کے پٹے گا۔۔۔۔؟
کہاں تو نہر پہ یار دوستوں کے ساتھ جا کے تقریبآ مفت کی “دھوانا پارٹی” ہو جاتی تھی۔۔۔ اب کون 1ہزار روپے کے چار خرید کر انہیں نہر کے پانی میں لگائے گا۔۔۔؟
اب تو ڈاؤلینس میں ٹھنڈے کئے جائیں گے، کیونکہ ڈاؤلینس ریلائبل ہے!۔
سنتے تھے کہ باہر کے ملکوں میں آم کی ایک ایک کاش ڈالروں میں بِکتی ہے۔۔۔۔ ان کا تو پتا نہیں، ہمارے تربوز ضرور اب ‘پھاڑیوں’ کے حساب سے بِکا کریں گے۔ دس روپے کی تو وہ اوپر والی “ٹک زدہ” تکونی کاش ملا کرے گی۔ یعنی کہ اب دھوانا ایک تعلیم یافتہ، مہنگا اور امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ والا فروٹ بن گیا ہے، اب دَھوانا واقعی تربوز بن گیا ہے۔۔۔۔۔!۔
نوٹ: ہو سکتا ہے کہ مجھے ہی مہنگائی آج محسوس ہوئی ہو۔ کیونکہ میں تربوز کو کوئی اعلیٰ نسل کا فروٹ شمار نہیں کرتا تھا۔ حالانکہ اس کا نام بڑا فارسی فارسی سا لگتا ہے۔
اور جو میں نے پرانے وقتوں کے حالات لکھے، وہ میرے دور کی بات نہیں۔ میرا دور اس کے بعد کا ہے اور ابھی جاری ہے۔ آخری یاد داشت اس وقت کی ہے جب تقریبا 10 یا 20 کا ایک تو مل ہی جاتا تھا کیونکہ کافی عرصے بعد تربوز خریدنے کا اتفاق ہوا۔ اس کی وجہ اسلام آباد میں اور ہاسٹل کے تقریبا ممی ڈیڈی ماحول میں قیام ہے۔