اے پتر ہٹان تے نئیں وکدے۔۔۔ جب بھی یہ نغمہ کانوں میں پڑا ہمیشہ خون میں ایک ابال محسوس کیا۔ جب پنجابی سمجھ آنا شروع ہوئی تو اس کے بول سن کے آنکھیں نم اور دھڑکنیں تیز بھی ہوئیں۔ سکول میں چھے ستمبر کی تقریبات میں حصہ بھی لیا، تقریریں بھی کیں، ٹیبلو بھی پیش کئے۔ آرمی پبلک سکول ہونے کے ناطے اکثر ستمبر کے مہینے میں عسکری نمائش بھی لگتی تھی، جس میں بچے ٹینک وغیرہ میں بیٹھ کر فوجی جوانوں کے ساتھ تصویریںبھی بنواتے تھے۔ میں نے بھی یہ شوق پورے کئے۔ پی ٹی وی پہ لگنے والی ٹیلی فلمیں بھی دیکھیں، ضلع گجرات اور گردونواح کے حصے میں نشان حیدر بھی ہیں اس لئے ہمیشہ اس طرح کی ٹیلی فلمیں دیکھ کر سینہ بھی چوڑا ہوتا ہوا محسوس ہوا۔
ننھیال چونکہ سیالکوٹ میں ہے اسلئے وہاں جا کر بھی ہمیشہ یہی لگا کہ جیسے بارڈر پہ آگئے ہیں اور ابھی گولہ باری شروع ہو گی اور ریڈیو پاکستان پہ نور جہاں کی آواز گونجنا شروع ہو جائے گی۔ سیالکوٹ کے قلعے پہ جا کر ہمیشہ یہی سنا کہ یہاں سے سامنے دیکھیں تو وہ جو پہاڑیاں ہیں، وہ بھارت ہے۔ اور اگر موسم ذرا صاف ہوتا تو بھارتی فوجی بھی نظر آ جاتے ہیں۔ قلعے کے نیچے موجودخفیہ سرنگ سیدھی بھارت میں لے جاتی ہے۔ 65 کی جنگ کے بعد ہی بند ہوئی ہے، ورنہ پہلے تو لوگ آر پار جاتے رہتے تھے۔ لیکن مجھے کبھی وہ سرنگ، وہ بھارتی فوج کی چوکیاں نظر نہیں آئیں۔ قلعے پہ تو بس تین چار ہوٹل تھے اور شادی ہال، باقی سارا مٹی کا ڈھیر اور کھنڈر ہی تھا۔ امی بتاتی ہیں کہ ہمارے نانا 65 کی جنگ چھڑنے کے فورا بعد شہر خالی ہونے کے پیش نظر وہاں سے کاروبار جلد بازی میں سمیٹ کر شجاع آباد شفٹ ہو گئے تھے۔ قلعے کے نیچے بازار میں ہی ان کی دکان تھی۔ بازار میں اکثر دکانیں کھنڈر بن گئی تھیں، ٹینکوں اور توپوں کے گولے آکر بازار میں گرتے تھے، بعد میں لوگ ان کو اٹھا کر لوہے کے طور پہ بیچ دیا کرتے تھے۔ امی کہتی ہیں کہ جنگ ختم ہونے کے بعد واپس آکر نانا کا کاروبار دوبارہ جم نہ سکا اور کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
گورنمنٹ کالج لاہور میں جو مطالعہ پاکستان کی ٹیچر تھیں وہ پورے کالج میں نوجوان طلباء میں بہت مشہور تھیں، وہ ہمیشہ آلٹرنیٹ نظریات پہ بات کرنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ انہوں نے ایک بار تقسیم ہند میں نہرو اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے ”کردار“ پہ خصوصی بحث کی تھی۔ میرے خیال میں ہم ”مین سٹریم“ سے ہٹ کر نئے خیالات یا نظریات کے بارے میں سوچنے کو پاگل پن کہتے ہیں اور ایسے لوگوں پہ طرح طرح کے الزامات یا تہمتیں لگاتے ہیں، جس کی وجہ سے نوجوانوں میں تصویر کا دوسرا رخ یا کسی ایک طبقے کی پیش کردہ تاریخ سے ہٹ کر معاملے کو دیکھنا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ جب میں یونیورسٹی میں آیا تو وہاں بھی جو ہمارے مطالعہ پاکستان کے اساتذہ تھے وہ دونوں ہی وزیٹنگ فیکلٹی تھے اور دونوں نے ہی تاریخ کو الگ تناظر میں پیش کیا تھا اور نصاب سے ہٹ کر پڑھایا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب وہ سقوط ڈھاکہ کے باب پر پہنچے تو ان کی آواز گلے میں ہی پھنس گئی، آنکھوں میں جگنو اتر آئے اور وہ ذرا دیر کو رکے اور پھر بات مکمل کی۔ انہوں نےایک بار اپنے بنگلہ دیش کے دورے کا ذکر کیا تو ان کی آنکھوں میں چمک اور عہد رفتہ کا ناسٹیلجیا صاف نظر آریا تھا۔
اپنے وطن سے محبت یا اپنی افواج کی قربانیوں کی قدر اور اپنے شہداء سے اظہار عقیدت اس بات سے ہی کیوں مشروط ہے کہ ہم اس ورژن سے ہٹ کر نہیں سوچ سکتے جو ہمیں ساری زندگی کتابوں میں پڑھایا گیا ہے؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ فاتح کا ساتھ دیتی ہے، بالکل درست۔ لیکن فاتح کون ہے یہ آپ اسی تاریخ سے اخذ نہیں کر سکتے جو اس نے خود لکھی ہو۔
اگر آج کے اس جدید اور انٹرنیٹ کے دور میں بھی آپ وہی چند سکول کی کتابوں والے جملے دہرا کر ایک نئی جنگ بیچنے کی کوشش کررہے ہیں تو بہت معذرت کے ساتھ ”آئی ڈونٹ بائے اِٹ!“۔
مستقل لنک
مستقل لنک
بہت خوب