جمعہ کا دن تھا۔ صبح گیارہ بارہ بج رہے تھے۔ جامع مسجد کا دروازہ ابھی بند ہی تھا کہ ایک آدمی، ایک عورت اور ایک نوجوان لڑکی تیز تیز چلتے ہوئے دروازے کے قریب آئے۔ تینوں نے موٹی کمبل نما چادریں اوڑھ رکھی تھیں اور آدمی نے ایک گٹھری بھی کندھے پہ اٹھائی ہوئی تھی۔ دروازے کے ساتھ ہی ایک تنگ سی گلی تھی جو آگے سے بند تھی۔ تینوں اس گلی میں گئے اور آدمی نے گٹھری اتار کر اسے کھولا اور اندر سے کئی چھوٹے بڑے کپڑوں کے ٹکڑے نکالے۔ لڑکی اور عورت زمین پہ بیٹھ چکے تھے۔ لڑکی نے اپنا کمبل اتارا اور اس عورت نے کپڑے کا ایک بڑا سا ٹکڑا اٹھا کر اسے اس انداز سے لڑکی کی ٹانگوں پہ باندھنا شروع کیا کہ جیسے لڑکی دوزانو بیٹھی ہو۔ اس کی ٹانگ مکمل طور پر دوہری ہو گئی تھی اور وہ عورت اس پہ ایک اور کپڑا لپیٹ رہی تھی۔ تقریبآ 5 منٹ بعد وہ لڑکی کھڑی ہوئی تو کوئی نہ کہہ سکتا تھا کہ اس کی ایک ٹانگ ہے یا دو!
اب وہ مسجد کے باہر کھڑی ہو کر مانگنے کیلئے تیار تھی۔
————————————————————————————————
میرے والد صیب بیمار ہیں اور علاج کیلئے پیسوں کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر کی پرچی میرے پاس موجود ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں۔ برائے مہربانی میری کچھ مدد کردیں۔ اللہ کسی کو کسی کا محتاج نہ کرے میرے بھائیو!۔
بظاہر کسی قسم کی کوئی معذوری نظر نہیں آ رہی تھی لیکن نوجوان انتہائی بے شرمی سے دروازے میں کھڑا ہو کر صدا لگا رہا تھا۔ میں نے دوسری طرف منہ پھیر لیا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
کھڑکی سی باہر بھی ایک بھکاری موجود تھا۔ ایک ہاتھ لٹکا کر، لنگڑا لنگڑا کر چلتے ہوئی ہر کھڑکی پہ صدا لگا رہا تھا بلکہ کچھ عجیب سی دھونس جما رہا تھا۔۔ آواز ہیڈ فونز کے باوجود بھی میرے کانوں میں گھسی جا رہی تھی۔ اگلی سیٹ پہ سیاہ چشمہ لگائے بیٹھا وہ شخص بڑے پر سکون انداز میں بیٹھا رہا کہ جیسے اسے اس بھکاری کی آواز آ ہی نہ رہی ہو۔ بھکاری نے اس شخص کی ’بے نیازی‘ دیکھتے ہوئے کچھ لعن طعن بھی کی کہ اللہ کے دیئے میں غریبوں کا حق بھی ہے۔ پانچ، دس دینے سے تیرے کول (پاس) کم نی ہو جانے! وہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔ حالانکہ دیئے تو میں نے بھی نہیں تھے لیکن ٹس سے مس ضرور ہوا تھا، بلکہ بہت زیادہ ہو رہا تھا۔۔۔
بس کے باہر کھڑا ایک آدمی جلدی سے اندر آیا اور بولا: ارے تم لوگ کچھ شرم کرو، ان بھائی صاحب کو تو چھوڑ دو۔ ذرا دیکھو ان کو اور ڈوب مرو۔ یہ پیدائشی اندھے اور بہرے ہیں، ایک فیکٹری میں پیکجنگ کا کام کرتے ہیں۔ کچھ ماہ پہلے ایک حادثے میں ان کی ٹانگ بھی ضائع ہوگئی تھی لیکن اب بھی کام نہیں چھوڑا۔ اور ایک تم لوگ ہو۔۔۔۔
اس تحریر پر 11 تبصرے کئے گئے ہیں
تبصرہ کیجئے
پچھلی تحریر: وہ ہاتھ آئی-ایس-آئی کا
اگلی تحریر: ورڈپریس 3۔3 [نواں آیا اے سوہنیاں!]
مستقل لنک
کبھی کبھی ميرے دل ميں خيال آتا ہے
کہيں يہ دنيا سب بہروپيوں کی تو نہيں
مستقل لنک
بالکل صحیح فرمایا آپہ ننے۔ بہروپیے بھی کوئی ایسے ویسے۔۔۔۔
مستقل لنک
بہت خوب بھائی انتہائی خوب صورت کردار کشی کی ہے اآپ نے۔ لیکن پہلا حصہ کچھ ادھورا سا لگتا ہے۔ اگر موضوع سمجھیں تو اسے مزید رنگ چڑھائیں۔ خوبصورت لگے گا
مستقل لنک
تشریف لانے اور حوصلہ افزائی کرنے کا بہت شکریہ۔
انشاء اللہ، اس موضوع پر مزید لکھا تو اس کو بھی اپڈیٹ کر دوں گا۔
مستقل لنک
ہر موڑ پہ مل جاتے ہیں ہمدرد ہزاروں
شاید میری دنیا میں اداکار بہت ہیں۔۔!
مستقل لنک
بلاگ پر تشریف لانے کا اور تبصرہ کرنے کا بہت شکریہ۔
مستقل لنک
ھمم، میری والدہ نے ایسے ہی ایک بیکارن سے کہا کہ چلو تمہیں 7 ہزار پر ملازمت دیتے ہیں تو وہ بیکارن ہنکار کر کہنے لگی اس سے زیادہ تو میں ایک دن میں کما لیتی ہوں۔
باقی آپ کی املاء ایک جگہ غلطی نظر آئی اوپر آپ نے لڑکی کی بات کی نیچھے آپ نے لڑکا لکھ دیا۔۔ یا شاید مجھے سمجھنے میں دشواری آرہی ہے
مستقل لنک
دونوں واقعات میں کوئی ربط نہیں ہے اصل میں۔ الگ الگ ہیں۔ اس لئے ایسا ہے۔
ایسے بھی کئی واقعات دیکھنے میں آئے ہیں کہ جو لوگ معذور یا کسی بیماری کا بہانہ بنا رہے ہوتے ہیں انہیں اگر کوئی علاج معالجے کی آفر کر دے تو وہاں سے فوراََ کھسک جاتے ہیں۔
مستقل لنک
ان جیسوں کی وجہ سے اصل ضرورت مند محتاج رہ جاتے ہیں ۔۔۔
مستقل لنک
مستقل لنک
اصل ضررتمند تو مانگتے ہی نہیں- مانگنے والے سب پیشہ ور ہیں- ہمیں اصل ضرورتمند کو ڈھونڈ کر دینا چاہئے۔۔۔