فیس بک پہ لاگ ان ہوا اور وال پہ نظر دوڑائی۔ پہلی پوسٹ اردو میں تھی، ایک نظر میں پڑھی اور فورا لکھنے والے کا نام دوبارہ دیکھا۔ اوہ ڈفر ہے یہ تو، ہمیشہ کی طرح کسی نے کچھ لکھ دیا ہو گا اور اب اس پہ گرما گرمی سے تبصرے سارے نیٹ پہ پھیلے ہوئے ہوں گے۔ لیکن اس طرح تو نہیں لکھتا کسی کے بارے میں۔ ایک بار پھر سارا سٹیٹس غور سے پڑھا، نیچے تبصرے دیکھے، مزید دیکھے، سارے کے سارے تبصرے پڑھے اور ۔۔۔۔۔ میری نظریں اس لنک کو ڈھونڈ رہی تھیں جس کے ساتھ لکھا ہو گا کہ ” پوسٹ پڑھی کسی نے تازہ تازہ، بلاگستان میں گھمسان کا رن پڑا ہے۔“ ”اچھا تو یہ ساری باتین اس تحریر کی وجہ سے ہیں۔“ لیکن۔۔۔ ایسا کوئی ربط موجود نہیں ہے۔ کسی پوسٹ کا حوالہ نہیں ہے۔ نیچے شعیب صفدر صاحب کا سٹیٹس بھی کچھ یہی بتا رہا تھا۔ اور نیچے جعفر کا، اور پھر ایک دو اور اردو بلاگرز کے سٹیٹس۔ یعنی کہ جس تحریر کی وجہ سے یہ سب لکھا، وہ کسی نے نہیں بلکہ خالق حقیقی نے لکھی ہے۔ یعنی یہ سچ ہے کہ محترمہ عنیقہ ناز اب اس دنیا میں موجود نہیں۔
اردو بلاگستان میں چند نام ہی ایسے ہیں جن سے سارا کا سارا بلاگستان واقف ہے۔ ان میں ایک نام عنیقہ ناز کا بھی ہے۔ باقاعدگی سے بلاگنگ کرنے والوں میں سے تھیں، اسی لئے آئے روز کسی نہ کسی موضوع پہ بلاگستان میں سلگتی بحث جاری رہتی تھی۔ اور بعض اوقات تو بس عنیقہ ناز صاحبہ ایک طرف اور زیادہ تر بلاگر دوسری طرف ہوتے تھے۔ اور پھر جو جوابی پوسٹوں کا سلسلہ تھا اور فیس بک اور ٹویٹر پہ تبصرے تھے، وہ بس چلتے ہی رہتے تھے۔ بلاگستان سے دور ہونے کے باوجود بھی فیس بک اور ٹویٹر پہ اس طرح کی پوسٹوں کے بارے اطلاعات مل جاتی تھیں۔ میں بہت ہی کم تبصرے کیا کرتا تھا ان کی پوسٹوں پہ، ایک وجہ تو کم علمی ہے اور دوسری وجہ بحث یا بلا وجہ بحث۔بعض اوقات تو میں نے اپنے آپ کو ان کی طرف کھڑا پایا، اور پھر ڈر کر فورا بھاگ گیا ان کے بلاگ سے۔ لیکن ان کی اکثر معلوماتی تحاریر میں نے اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو ریکمنڈ کیں۔ اتنے مکس موضوعات پہ شاید ہی کوئی بلاگر طبع آزمائی کرتا ہو۔ ان کا بہرحال زندگی کا اپنا ایک نظریہ تھا جس سے سب لوگ متفق نہیں ہو سکتے تھے لیکن ان کا بلاگ پورے بلاگستان میں چند متحرک اور فعال ترین بلاگز میں سے ایک تھا۔ مجھے ہمیشہ اس بات سے دکھ ہوتا تھا کہ وہ اور باقی بلاگر باقاعدہ ایک جنگ کی صورت میں جوابی تحاریر لکھتے تھے۔ اور کبھی کبھار بحث بلا وجہ طول پکڑتی تھی۔ لیکن یہ بھی زندگی کا ایک حصہ ہے، اس زندگی کا جو آج جس وجود میں ہے کل اس میں نہیں ہوگی۔
موت تو ہر ذی نفس کو آنی ہے، لیکن دوسروں کی موت آپ کو کچھ نہ کچھ ضرور سکھا جاتی ہے۔ انسان کے نظریات، سوچ، سمجھ سے بھلے کوئی متفق ہو یا نہ ہو، لیکن اگر آپ کھرے، سچے اور دو ٹوک بات کرنے والے ہیں تو بھی لوگ آپ کو ضرور یاد رکھیں گے۔ آؤٹ آف دا باکس سوچنے والی عنیقہ ناز صاحبہ انہیں لوگوں میں سے ایک تھیں۔
اس تحریر پر 4 تبصرے کئے گئے ہیں
تبصرہ کیجئے
پچھلی تحریر: وائمار، گوئٹے اور میں – حصہ 2
اگلی تحریر: اقبال ڈے
مستقل لنک
مستقل لنک
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عنیقہ ناز کو جنت میں اعلیٰ مقام دے اور ان کے پس ماندگان اور خاص کر ان کی بیٹی مشعل کو اللہ صبرجمیل عطا فرمائے ۔ انہیں علم کا ذوق و شوق عطا فرمائے ،اسلامی شریعت کی راہ پر گامزن فرمائے۔ آمین۔
مستقل لنک
اللہ مرحومہ کی مغفرت کرے اور ان کی بیٹی کو االلہ اور اس کے رسول ص کے طریقوں پر چلنے کی توفیق دے آمین
مستقل لنک
الللھ تعالے انھے جنت الفردوس مے جگھ عطا فرماعے آمین ۔ اوران کی بیٹی کو صبرِ جمیل عطا فرماعے ۔ آمین