گزشتہ سے پیوستہ: وائمار گوئٹے اور میں – قسط 1
جب میں طے شدہ پارکنگ ایریا میں پہنچا تو وہاں نہ بندہ تھا نہ بندے کی ذات۔ پریشانی میں ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ ایک لڑکا نظر آیا، اس کے پاس جا کر انگریزی میں پوچھا کہ یہاں سے ایک ٹور بس نے چلنا ہے آج، لیکن کوئی نظر نہیں آ رہا۔ وہ بولا کہ بس سٹاپ یہی ہے ، ابھی ساڑھے سات بجنے میں دو منٹ باقی ہیں، آپ انتظار کریں۔ اور ٹھیک ڈیڑھ منٹ بعد بس آتی نظر آئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے پتا نہیں کہاں سے لڑکے لڑکیاں اکٹھے ہو گئے اور 15 منٹ بعد بس چلنے کیلئے تیار تھی۔
بس میں بیٹھ کر میں نے اچک اچک کر دیکھا لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نظر نی آیا جس سے میں پہلے مل چکا ہوں یا وہ پاکستانی ہو۔ یعنی کہ میں نے سفر میں سفر ہی کرنا ہے۔ مجھ سے چند سیٹیں آگے ایک دو بھارتی بیٹھے ہوئے تھے، لیکن میں ظاہر ہے بالکل نا واقف تھا اسلئے بس ہیلو ہائے تک ہی بات رہی۔ سفر کوئی ڈیڑھ گھنٹے کا تھا، بس جب وائمار پہنچی تو سب لوگ ٹورسٹ سینٹر کے باہر جمع ہو گئے۔ یہاں سے ٹور کا آغاز ہونا تھا اور اختتام بھی یہیں پہ ہونا تھا۔ ٹورسٹ سینٹر سے دو ٹور گائیڈنیئیں یعنی کہ زنانہ ٹور گائیڈ آئیں اور ایک جرمن اور ایک گروپ انگریزی سمجھنے والوں کا بن گیا۔ میں انگریزی گروپ میں تھا۔ ہماری ٹور گائیڈ ایک ادھیڑ عمر خاتون تھی۔ ہاتھ میں چھتری پکڑے آگے آگے چلتی رہی اور ساتھ ساتھ مختلف جگہوں کے بارے معلومات پہنچاتی رہی۔
سب سے پہلے ہم وائمار آٹریوم گئے۔ جو کہ شہر کا مرکزی پوائینٹ ہے۔ آٹریوم اصل میں ’گاؤفورم‘ (Gauforum) کہلاتے تھے جو ہٹلر کے زمانے کی ایک یادگار ہے، جب ہٹلر کا دور شروع ہوا تب سے ہی جرمنی کے کئی بڑے اور چھوٹے شہروں کو ری ڈیزائن کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ ہٹلر کی منشاء کے مطابق یادگاریں اور ایسی دفتری عمارتیں تعمیر کی گئیں جن سے لوگوں کے دلوں میں نیشنل سوشلزم کی دھاک بیٹھ جائے۔ یہ کمپلیکس بھی اسی زمانے میں تعمیر کیا گیا۔ بنیادی طور پہ نازی پارٹی اور ضلعی انتظامیہ کے دفاتر کیلئے تعمیر کیا گیا تھا۔ ہٹلر کے مطابق شہر کے مرکز میں نیشنل سوشلزم کے نظریے کو پھلنے پھولنے کی جگہ دی جانی چاہیئے۔ کمپلیکس کے مرکز میں پریڈ گراؤنڈ بنایا گیا جہاں قومی راہنماؤں کو سلامی دی جاتی تھی۔ اس طرح کے پانچ مراکز کی تعمیر کا حکم دیا گیا تھا جن میں سے صرف وائمار کا گاؤفورم ہی اپنی اصلی حالت میں باقی بچا ہے۔
آئیں اب آگے چلتے ہیں، ہمارے خیال میں اگلا سٹاپ گوئٹے کا گھر تھا۔ گائیڈ ہمیں لے کر ایک پھاٹک سے اندر داخل ہوئی۔ اندر ایک بڑا سا دالان تھا جس کے چاروں طرف کمرے تھے۔ ایک کونے میں ہاتھ والا نلکا لگا ہوا تھا۔ سب نے کہا یہ گوئٹے کا گھر ہے؟ بتایا گیا کہ نہیں، یہ اس کے ایک عزیز دوست کا گھر ہے جس کے چھوٹے سے باغیچے میں گوئٹے کا کافی وقت گزرتا تھا۔ باغیچے کا راستہ تنگ دروازوں سے گزر کر تھا اور ایک دم تازہ ہوا کا دلکش احساس ہوتا تھا۔
اس کے بعد ہم مختلف سڑکوں سے ہوتے ہوئے وائمار کے قلعے تک پہنچے ۔ یورپ میں ہمیشہ سے بادشاہوں اور چھوٹے چھوٹے راجوں مہاراجوں کی حکومت رہی ہے۔ ہر شہر کا اپنا راج محل یا قلعہ ہوتا تھا ور ایک خاندان کئی شہروں پہ حکومت کرتا تھا۔ بعض اوقات کئی شہر مل کر ایک یونین کی طرح بھی رہتے تھے لیکن عام طور پر سب کا اپنا اپنا ڈیڑھ اینٹ کا محل ہوتا تھا۔ وائمار کا محل ڈیوک آف زاکسن-وائمار کی رہائشگاہ تھا۔ اس خاندان نے اس علاقے پر 15ویں صدی سے لیکر 20ویں صدی کے اوائل تک حکومت کی۔ آخری ڈیوک کارل آگسٹ اور اس کی والدہ آنا امالیا فنون لطیفہ اور ادب کی ترقی و ترویج کیلئے خاص مشہور ہیں۔ کارل آگسٹ کے دور میں ہی گوئٹے، شلر اور کئی دوسرے مشاہیر نے وائمار کا رخ کیا۔
ڈچَس آنا امالیا نے اپنے دور میں اپنی رہائشگاہ کو لائبریری میں تبدیل کر دیا تھا اور آج یہ لائبریری یورپ کے بڑے کتب خانوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس لائبریری میں دس لاکھ کے قریب مجموعے موجود ہیں۔شیکسپیئر سے متعلقہ ادب کی تقریبا دس ہزار کتب اس لائبریری کی زینت ہیں۔ گوئٹے کے ناول فاؤسٹ کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی اسی لائبریری میں محفوظ ہے۔
اس کے بعد ہم شہر کی گلیوں سے ہوتے ہوئے شیلر کے گھر تک پہنچے۔ فریڈریک شیلر کا گھر کچھ زیادہ عالیشان نہیں تھا، گو کہ شیلر اور گوئٹے دونوں ہی وائمار کلاسیکیت کے دور سے ہیں لیکن گوئٹے کو روپے پیسے کے معاملے میں زیادہ معاونت حاصل ہوئی جس کے باعث وہ ہمیشہ اچھے حالات میں رہا۔ شیلر کے فورآ بعد ہم گوئٹے کے دربار پہ حاضر ہوئے۔ گوئٹے کا گھر شہر کے اچھے علاقے میں تھا اور خاصا بڑا تھا۔ بقول ہماری جرمن گائیڈ کے شیلر کا گھر اور اس سے منسلک میوزیم مخصوص ایام میں ہی کھولا جاتا ہے جبکہ گوئٹے کا گھر اور میوزیم کھلا تھا۔ لیکن اس کا ٹکٹ کافی زیادہ تھا۔ اس پہ سب حاضرین کے منہ لٹک گئے کیونکہ سٹوڈنٹ ڈسکاؤنٹ کے باوجود بھی کسی کی ہمت نہ ہوئی۔ اور ہو بھی کیسے سکتی تھی، زیادہ تر طالبعلم نئے نئے آئے تھے لہٰذا سب ہی یورو کو اپنی اپنی کرنسی میں کنورٹ کر کے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔! ہماری گائیڈ نے کچھ کمپینسیٹ کرنے کیلئے اپنے بٹوے میں سے چند بلیک اینڈ وائٹ تصاویر نکالیں اور ہمیں دکھائیں کہ اندر سے یہ گھر ایسا ہے۔ یوں ہم گوئٹے کے گھر کو اندر سے دیکھے بغیر ہی واپس پلٹ آئے۔
اب ہم نے شہر کے مرکزی پارک میں جانا تھا جو کہ گوئٹے نے خود ڈیزائن کیا تھا۔ لیکن راستے میں ہم ایک سڑک کنارے لگے درخت کے پاس رکے۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہ درخت گوئٹے نے اپنے ہاتھوں سے یہاں لگایا تھا۔ جب وہ اٹلی سے واپس آیا تو اس نے اپنی محبوبہ ’فراؤ فون شٹائن ‘ کی یاد میں یہ درخت لگایا جو اب بھی ہرا بھرا ہے۔ گوئٹے کو پودوں سے خاص شغف تھا، اس نے اپنے دیوان غربی شرقی میں اسی درخت کے بارے میں ایک نظم بھی لکھی۔ اس درخت کو ”جنکو بائی لوبا“ کہا جاتا ہے۔ اس درخت کے پتے دل کی شکل میں ہوتے ہیں۔ گوئٹے میوزیم شٹوٹ گارٹ کے باہر بھی یہ درخت موجود ہے۔ شہر کے مرکزی باغ میں گوئٹے کا گارڈن ہاؤس بھی ہے۔ اور اسی باغ کے بیچ میں جنگِ عظیم کی تباہی کی یادگار کے طور پہ ایک عمارت کا کچھ حصہ اب بھی موجود ہے۔ اسی باغ میں ایک طرف الیگزنڈر پشکن کا مجسمہ نصب ہے، جو روسی دور کی ایک یادگار ہے۔
باغ تک آ کے ہمارا ٹور تقریبا ختم ہو گیا تھا اور اس کے بعد کھانے پینے اور خود ایکسپلور کرنے کا ٹائم تھا۔ میں نقشے کی مدد سے شہر کے مرکز میں موجود تھیاٹر پلاٹز یعنی تھیٹر چوک چلا گیا جہاں جرمن نیشنل تھیٹر کے سامنے گوئٹے- شیلر یادگار ہے۔ تھکاوٹ نے مزید آوارہ گردی سے روک دیا ورنہ ابھی کچھ اور جگہیں بھی تھیں جو دیکھی جا سکتی تھیں۔ جیسے باؤ ہاؤس یونیورسٹی کا کیمپس، گوئٹے کا قبرستان، گوئٹے – حافظ مانومنٹ، بوخن والڈ کا کنسنٹریشن کیمپ۔ ارادہ تو یہی ہے کہ پھر کبھی دوبارہ جا کر باقی ماندہ وائمار دیکھیں گے۔ اس تحریر کو یہیں ختم کرتے ہیں۔ امید ہے آپ کو وائمار کے بارے میں جان کر خوشی ہوئی ہو گی اور یہ مضمون پسند آیا ہو گا۔
ولسلام
پچھلی تحریر: وائمار، گوئٹے اور میں – حصہ1
اگلی تحریر: ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم