پچیس سال پہلے آج ہی کے دن، مشرقی جرمنی کے شہر لائپزگ میں شہر کے مرکز میں واقع نکولائی گرجا گھر کے سامنے ایک احتجاج کیا گیا، جسے ’منڈے ڈیمونسٹریشن‘ (Monday Demonstration or Montagsdemonstration) یعنی ”احتجاجِ سوموار“ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ پہلا احتجاج تھا جس نے بعد کے آنے والے دنوں میں مشرقی اور مغربی جرمنی کا اتحاد یقینی بنایا۔ اس پر امن احتجاج کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مشرقی جرمن شہریوں کو حقِ رائے دہی دیا جائے اور ملک میں جمہوری حکومت کا قیام کیا جائے۔ روسی اثر کے تحت مشرقی جرمنی میں اسوقت سوشلسٹ حکومت قائم تھی اور لوگوں کو ووٹ کے حق کے علاوہ بیرون ملک سفر کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔ یہ احتجاج 4 ستمبر 1989سے شروع ہوئے اور پھر ہر سوموار اسی طرح شہر کے مرکز میں 1990 تک ہوتے چلے گئے۔ ہر احتجاج میں پہلے سے زیادہ تعداد نے شرکت کی اور ایک مہینے کے اندر اندر گرجا کے اندر اکٹھے ہونے والے چند سو لوگ ستر ہزار کے مجمع میں تبدیل ہوگئے اور حق رائے دہی کیلئے نعرہ بلند کرتے رہے، ’ہم افراد ہیں، ہم لوگ ہیں‘ (we are the people. Ger: Wir sind das Volk)۔ یہ نعرہ جمہوریت کی اساس ہے، وہ حکومت جسے جمہور چنے، وہی جمہوری حکومت ہوتی ہے۔ اس وقت کی جرمن پولیس اور فوج گو کہ احتجاج کی جگہ موجود تھی، لیکن مشرقی برلن کی طرف سے واضح احکامات نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی مداخلت یا رکاوٹ سے گریز کرتی رہی اور پر امن احتجاج پر امن ہی رہا۔ دو مزید ہفتے اسی طرح گزرے اور 23 اکتوبر کو شہر کی 5 لاکھ کی کل آبادی میں سے ساڑھے تین لاکھ سڑکوں پہ تھے۔ مغربی جرمنی کے میڈیا نے ان واقعات کو نشر کیا اور لوگوں نے مشرقی جرمنی کے دوسرے شہروں میں بھی اسی طرح سوموار کے دن احتجاجوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ عوامی پریشر اسقدر بڑھ گیا کہ 9 نومبر 1989 کو دیوارِ برلن گرا دی گئی۔ جس سے مشرقی جرمنی میں سوویت سوشلسٹ حکومت کا تقریبا خاتمہ ہوا۔ یہ احتجاجی مظاہرے بالاخر 1990 میں ختم ہوئے جب پہلی بار مشرقی جرمنی میں کثیر جماعتی انتخابات کروائے گئے اور لوگوں نے اپنے منتخب نمائندوں کو فولکس کامر یعنی پارلیمان تک پہنچایا۔ جہاں آنے والے چند ہی مہینوں میں لوگوں کی منشا اور مرضی کا خیال کرتے ہوئے دونوں جرمن ممالک کو دوبارہ متحد کرنےکا اعلان کر دیا گیا۔ اور اس طرح ایک ”نیا جرمنی“ معرض وجود میں آیا۔
ہماری جرمن کی استانی کہا کرتی تھیں کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم دوبارہ اکٹھے ہو سکے، ورنہ دنیا میں آئے دن ایک ہی قوم بیٹھے بٹھائے دو میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اور اس طرح تقسیم ہو جاتی ہے کہ ایک نسل، ایک باپ دادا کی اولاد ہوتے ہوئے بھی ان کے درمیان اختلافات کی ایک ایسی دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے کہ اسے گرانا بعد والوں کیلئے نا ممکن ہو جاتا ہے۔ میرے ایک دوست نے کچھ ہی دن پہلے کہا تھا کہ ہم کسی سیاست یا سیاسی لوگوں یا عالمی برادری کے کہنے پہ اکٹھے نہیں ہوئے تھے، بلکہ یہ لوگوں کا فیصلہ تھا۔ جب لوگوں کو ان کے حقوق نہیں ملے اور وہ غربت سے اکیلے لڑنے کیلئے تنہا چھوڑ دیئے گئے، یہاں تک کہ ساتھ والے ملک میں جا کر روٹی کمانا بھی منع کر دیا گیا تو انہوں نے آواز اٹھائی اور اسوقت تک خاموش نہیں ہوئے جب تک سب نے سن نہ لی۔
اس تحریر پر 2 تبصرے کئے گئے ہیں
تبصرہ کیجئے
پچھلی تحریر: فیسبک نامہ
اگلی تحریر: مادری زبان کا عالمی دن
مستقل لنک
کیسی اچهی بات بتائی……واقعی ایسا لگاکہ آپ کی جرمن استانی زیرِ لب مسکرا کر ہماری طرف اشارہ کرنا چاہتی ہے کہ یہ دولخت ہونے والے ملک سے ہیں – زمینی حقائق اور اعداد و شمار کی بات ایک طرف، آج بهی ہمارے اور بنگالیوں میں کوئی بہت اچهے تعلقات نہیں ……اور جو بچا کچها وطن ہمارے ہاتھ میں ہے، اس میں بهی جی بهر کے تعصب ہے-
اللہ سے رحم اور کرم کی دعا ہے.
مستقل لنک
بہت اچھی اور نئی معلومات ہیں ہم اپنی تاریخ سے ہٹ کر کسی اور ملک کے بارے میں بہت کم معلوم کرتے ہیں ۔
بہت اچھا لکھا اور پڑھکر اچھا بھی بہت لگا ۔۔خوش رہیں