میرے فیسبک پہ کوئی ساڑھے کو تین سو ”دوست“ ہیں۔ صبح سے شام تک میری ’وال‘ پہ ہزاروں کی تعداد میں مواد چپکایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ دانستہ نہیں چپکایا جاتا بلکہ ایک خود کار ڈھنڈورا سسٹم کے تحت دنیا میں موجود لاکھوں افراد کی پوسٹیں کروڑوں افراد تک پہنچا دی جاتی ہیں۔ گندے لطیفوں سے لے کر خلیل جبران کے فلسفے تک سب کچھ ایک ایک کر کے سامنے آتا رہتا ہے۔ پاس کر یا برداشت کر کے عمل کے تحت اس کو پراسیس کرنا ہوتا ہے اور لگاتار کرتے رہنا ہوتا ہے۔ جتنی کمپلیکس یہ دنیا ہے اس سے کئی گنا زیادہ مشکل اور عجیب اس دنیا کی ”سوشل لائف“ ہے۔ یہ جو لائک اور شیئر ہے ناں، اس نے ہمارے لئے معلومات کا مقصد اور ان کی اصل بدل کے رکھ دی ہے۔ کبھی کبھی میں حیران رہ جاتا ہوں جب میں اپنی وال دیکھتا ہوں کہ یہ ہو کیا رہا ہے یہاں؟ پاکستان میں گفتگو ہی ایسے شروع ہوتی ہے کہ: ”تجھے پتا چلا کامونکی میں تین سروں والا کالا ناگ پکڑا لوگوں نے۔۔۔فیس بک پہ ویڈیو دیکھی تھی میں نے۔“ کوئی کہتا ہے ” یار یہ فلاں کمپنی کا جوس نہ پیا کرو، اس میں ڈائی فلورو ٹرائی کاربو آکسی نائٹرو پرو پیو نک ایسڈ ہوتا ہے!!۔۔۔ میں نے کل ہی فیس بک پہ پڑھا تھا۔“ کوئی صاحب اسلامی معلومات کا خزانہ اس تندہی سے شیئر کرنے پہ لگے ہوئے ہیں کہ شاید خود پڑھنے کا بھی موقع نہیں ملتا۔ ایسے ایسے اقوالِ زریں ڈھونڈ کے لگاتے ہیں کہ بندہ کراس چیک ہی نہ کر سکے۔ کسی صاحب نے یہ بیڑا اٹھایا ہوا کہ دنیا بھر سے کٹی پھٹی، مسخ شدہ لاشوں کی تصاویر کے نیچے اپنی مرضی کی عبارت، مرضی کے بندے سے منسوب کرکے دھڑادھڑ لگائی جا رہے ہیں۔ بعض اوقات وہی پرانی لاش، نئے جھنڈے کے ساتھ شیئر کی ہوئی ملتی ہے۔
شعراء کے کلام کی بکھری ہوئی دھجیوں کا ذکر پہلے ہی کر چکا ہوں میں جس میں سر فہرست ہمارے علامہ اقبال ہی ہیں۔ بہت سے ایسے فیس بک صفحات جنہوں نے نام ہی اقبال، علامہ اقبال، کلام اقبال وغیرہ رکھا ہوا ہے، وہ بھی اس غیر ذمہ داری سے شیئر کرتے ہیں کہ اب تو غصہ بھی نہیں آتا! ایک دو صفحات پہ میں نے یہ مہم بھی چلائی کہ ہر پوسٹ کے نیچے کمنٹ میں اس کا حوالہ مانگنا شروع کر دیا تا کہ اگر کسی کو پتا ہو تو لگا دے، اور اگر کسی کو نہیں پتا تو اس کو مشکوک حیثیت حاصل ہو جائے۔ چلیں یہ تو ہوئیں پرانی اور ہمیشہ سے ہوتی ہوئی حرکتیں۔۔۔ ذرا حال میں آتے ہیں۔ جب سے رمضان شروع ہوا ہے، ایک عجیب قسم کی روانی آگئی ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ اتنا لمبا روزہ گزارنا مشکل کام ہے اور لوگ ذرا فریش ہونے کو سارا دن فیسبک پہ گزارتے ہیں تاکہ روزے کی سختی میں کمی آ جائے۔ سحری کے بعد نیند آنے میں ذرا دیر ہو جاتی ہے اسلئے بستر میں پڑے پڑے فیسبکنا ہی واحد ذریعہ نجات نظر آتا ہے۔ اوپر سے فیفا ورلڈ کپ نے کسر پوری کر دی تھی۔ ابھی ورلڈ کپ کے آخری میچ باقی تھے کہ اسرائیل و فلسطین کا تنازعہ زور پکڑ گیا۔ ساتھ میں رمضان نشریات میں ”عامر بھائی“ بھی فارم میں آنے لگے۔ اب اتنا سب کچھ ہو رہا ہو اور 3جی اور فیسبک بھی آپکی رسائی میں ہو تو۔۔۔۔ رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے۔۔۔
فٹبال فینز نے تو ایک بار انتہا ہی کر دی، میسی کے نقادوں نے غزہ پہ بمباری کے بعد میسی کی اسرائیل میں لی گئی تصاویر لگانی شروع کر دیں۔ ذرا نیچے کیا تو اس کے مداحوں نے اپنی صفائی میں لنک شیئر کرنا شروع کئے ہوئے تھے کہ وہ فلسطین سے بھی اظہارِ یکجہتی کر چکا ہے! خدا کے بندو! ذرا سوچو کہ کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ ایک ارجنٹینی فٹبالر اسرائیل میں کیا کرتا پھرتا ہے۔ یا وہ فلسطین کے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ اس سے نہ تو میچ پہ کوئی اثر پڑتا ہے نہ ہی فلسطین پہ۔۔۔ فرق پڑتا ہے تو بس اتنا کہ یہ پتا چلتا ہے کہ ہم کتنے سپر فیشل ہیں اپنے جذبات میں، اپنی حمایت میں اور اپنی مخالفت میں۔ کھیل کو کھیل اور سنجیدہ موضوع کو سنجیدہ رکھنا ہم کبھی بھی نہیں سیکھتے۔ حقائق کو حقائق مان کر تسلیم کرنا اور جھوٹ کو جھوٹ کہنا خواہ وہ کتنا ہی ایمان افروز، خوبصورت اور ’ضروری‘ نظر آئے، یہی اصل مردانگی ہے۔
اس تحریر پر 6 تبصرے کئے گئے ہیں
تبصرہ کیجئے
پچھلی تحریر: لالہ لینڈ Lala-land
اگلی تحریر: نیا جرمنی
مستقل لنک
بھائی یہی بات ہے کہ ہم اندھا دھند تقلید کے قائل ہیں۔ میں نے بھی میسی کی تصاویر دیکھی تھیں اسرایئل کی حمایت میں۔ مگر اگلے ہی لمحے کسی نے فلسطین کے حق میں اسی کی تصاویر ڈال دیں۔ اور تو اور اوزل نامی فٹبالر کی قمائی شدہ رقم بھی فلسطینی مسلم بھائیوں کے کھاتے میں ڈال دی گئی۔ پھر اگلے ہی روز معلوم پڑا کہ وہ برازیل کے بچوں کے لیے اس نے عطیہ کردی ہے۔
واقعی آجکل شوشل لائف ذاتی زندگی سے زیادہ ابتر معلوم پڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ مگر یہ ایسی لت ہے کہ اس سے چھٹکارا بھی اتنی آسانی سے ممکن نہیں۔
مستقل لنک
بہت اچھا لکها . . .
مستقل لنک
آپ نے جو کُچھ فرمایا ہے بہت خوب فرمایا۔ لمبے روزے پہلے فلمیں دیکھ کر گُزارے جاتے تھے اب فیس بُک چٹ پٹی پوسٹوں کا سہارا لیا جاتا ہے
مستقل لنک
ہم تو جی بس اسی لئے زیادہ ٹائم فیس بک پر نہیں آئے کہ آپ کے فتوے کا ڈر ہی لگا رہا
مستقل لنک
میں آج کل utorrent سے بچوں کے لیے مویز ڈاون لوڈ کرنا چاہتی ھوں ۔ کچھ تو ہند اردو doubingمیں موجود ہیں لیکن زیادہ تر subtitlesوالی مویز ہیں۔ بہت search کے بعد اردو sub title والی موی ملی جس کا نام ہےThe Terminal اس کا سب ٹائٹل والی فائل کا file type ہے .Rets اس کو VLC Media player میں چلایا تو بلاک کی شکل میں فونٹ نظر آ رہے ہیں۔ پلیز ہلپ کریں۔ کہ اردو فونٹ اردو میں نظر آئے اور مذید اردو sub titles والی فائلز جو str. کی ہوتی ہیں وہ کہاں سے ملیں گی۔ بے حد شکریہ امید ہے کہ مدد کی جائے گی۔
مستقل لنک
بلاگ پہ آنے کا بہت شکریہ اور دیر سے جواب کی معذرت۔
سب ٹائیٹلز والا کام بہت عرصہ پہلے کیا تھا اور دو تین فلمیں ہی ترجمہ کی تھیں۔ بلاک کی شکل میں نظر آنے کا مطلب ہے کہ وی ایل سی پلیئر میں UTF 8 یا Unicode فونٹ دکھانے کی سیٹنگ نہیں کی گئی۔ آپ اس کے tools کے آپشن میں جا کر، preferences میں سب ٹائیٹلز پہ جائیں، اور ڈیفالٹ این کوڈنگ default encoding کو UTF8 کر دیں۔ امید ہے اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔
کسی بھی پلیئر میں اردو یا کسی بھی عربی رسم الخط والی زبان کے ٹائیٹلز چلانے کیلئے اس کی کوڈنگ کو یونیکوڈ یا یو ٹی ایف 8 پہ سیٹ کر دیں تو اردو درست دکھائی دے گی۔
مزید اردو سب تائیٹلز والی فلمیں ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ کیونکہ اس کیلئے کوئی مخصوص ادارہ یا گروپ کام نہیں کر رہا، میری معلومات کے مطابق۔ میں نے پرنس آف پرشیا کے اردو سب ٹائیٹلز بھی بنائے تھے۔ آپ وہ ڈھونڈ سکتیں ہیں۔ آسانی سے مل جائیں گے گوگل کرنے سے۔