آج( 21 فروری) ”مادری زبان کا عالمی دن“ ہے۔ سنہ 1952ء میں آج ہی کے دن موجودہ بنگلہ دیش (اس وقت کے صوبہ مشرقی بنگال، پاکستان) کے شہر ڈھاکہ میں یونیورسٹی طلباء نے بنگالی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کےحق میں مظاہرہ کیا۔ مظاہرے کے دوران پولیس نے بے قابو مظاہرین پہ گولیاں چلا دیں، جس کے نتیجے میں چند طلباء جانبحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ یہ وہ وقت تھا جب سابق مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت میں شدید اختلافات چل رہے تھے۔ بنگالی کو اردو کے برابر سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ زوروں پہ تھا اور مرکزی حکومت مسئلے کو حل کرنے میں اگر سنجیدہ تھی بھی تو کم از کم ناکام ضرور رہی تھی۔
یہ لکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جب میں سکول میں تھا تب سے میں ”اردو-ہندی تنازعہ“ تو پڑھتا آ رہا ہوں جو پاکستان بننے سے پہلے کا تھا، لیکن مجھے یاد نہیں کہ میری مطالعہ پاکستان کی کتاب میں ”اردو-بنگالی تنازعہ“ کے بارے میں کچھ تھا بھی یا نہیں۔ اگر اس کے بارے میں کچھ تھا بھی تو مجھے یاد نہیں ہے۔ انٹرنیٹ پہ تھوڑی سا وقت برباد کرنے کے بعد میں نے جو پڑھا ہے (جو کہ غیر جانبدار معلومات ہرگز نہیں ہو سکتی)، اس کے مطابق مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی کئی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہی تنازعہ بھی تھی۔ اگر یوں کہا جائے کہ بنگالی نیشلزم کو بڑھاوا دینے میں سرکاری زبان تنازعے کا بہت بڑا ہاتھ ہے تو درست ہوگا۔ 1947 اور 1948 میں پاکستان مشکل دور میں تھا، جس کی بڑی وجہ پوسٹ پارٹیشن ہجرت تھی۔ اس مشکل دور میں کچھ چیزوں کو بڑے ہی عجیب انداز میں ہینڈل کیا گیا، جن میں سے ایک صوبہ مشرقی بنگال کے معاملات تھے۔ 21 مارچ 1948ء کو قائداعظم محمد علی جناح کی ڈھاکہ میں کی گئی تقریر میں صاف دو ٹوک الفاظ استعمال کرتے ہوئے ’صرف اردو‘ کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ قائداعظم نے واضح طور پہ یہ کہا تھا کہ صوبائی سطح پہ جو بھی زبان اختیار کی جائے گی وہ صوبے کا معاملہ ہے لیکن مرکزی سطح پہ سرکاری زبان اور رابطے کی زبان اردو ہو گی۔ ان کے الفاظ کو استعمال کر تے ہوئے بعد کی آنیوالی حکومت نے مرکزی حکومت میں صرف اردو کو رائج کرنے کی بھرپور کوششیں کیں اور بنگالی کے معاملے کو نظر انداز کر دیا۔ سول سروس کے امتحانات صرف اردو میں دیئے جا سکتے تھے، پاک فوج اور نیوی کے ٹیسٹ صرف اردو میں تھے۔ گو کہ صوبائی سطح پہ بنگالی کی حیثیت برقرار تھی لیکن تمام سرکاری و عدالتی معاملات چاہے وہ ڈھاکہ میں ہوں یا کراچی میں، اردو میں تھے، یا پھر انگریزی میں جو کہ سابقہ سرکاری زبان ہونے کے باعث، فی الوقت ختم نہیں کی جا سکتی تھی!۔
ان عوامل کے تحت مشرقی پاکستان میں مرکزی حکومت کے خلاف ڈھکے چھپے تاثرات میں اضافہ ہوتا رہا۔ یونائٹڈ فرنٹ اور عوامی لیگ اس مسئلے کو لے کر سیاست کرتے رہے۔ 1950 سے پہلے معاملہ شاید حل کیا جاسکتا تھا لیکن اس کے بعد معاملہ سیاسی رخ اختیار کر گیا اور عوامی پارٹی کی سیاست کا مرکزی نقطہ بن گیا۔ 1952ء میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی نے باقاعدہ طور پہ آئین پاکستان میں اردو کو واحد سرکاری زبان بنانے کی سفارش پیش کی۔ جس پہ مشرقی پاکستان میں تنازعہ پھر سے زور پکڑ گیا اور 21 فروری کا یہ سانحہ پیش آیا۔
گو کہ 24 فروری 1956 کواس وقت کے آئین پاکستان میں ترمیم کرتے ہوئے اردو اور بنگالی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا، لیکن اس وقت تک بات زبان کے تنازعے سے آگے جا چکی تھی یا پھر زبان کا تنازعہ تھا ہی نہیں، معاملہ وہی تھا جو آخرکار ہو کے رہا، سقوطِ ڈھاکہ۔
27 مارچ 1952ء کو اسمبلی میں سرکاری زبان تنازعہ کے حوالے سے ایک قرارداد پیش کی گئی اور پھر اس قرارداد پہ بحث کو ’مستقبل‘ پہ اٹھا رکھنے کی بات کی گئی جس پہ بحث کے دوران سردار شوکت حیات خان نے کچھ یوں کہا تھا:
”میں اس صوبے سے ہوں جس نے اردو زبان کو پچھلے تیس یا چالیس یا اس سے بھی زیادہ سال پروان چڑھایا ہے اور پنجاب کو اس بات پہ فخر ہے کہ ایک ایسی زبان کو سنبھالا جو اس کی اپنی نہیں تھی۔ باوجود اس کے کہ ہم نے اس زبان کو اپنایا، اس کی نشونما کی، اسے مزید بہتر بنایا، میں یہاں اپنی پوری ذمہ داری کے ساتھ بنگالی زبان کی حمایت میں کھڑا ہوں اور یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ ہمیں بنگالی کو سرکاری زبان بنا لینا چاہیئے۔ وہ اس ملک کے 4 کروڑ نو لاکھ سے زائد افراد کی زبان ہے۔ اگر ہم مغربی پاکستان کے لوگ مشرقی پاکستان کی اس خواہش کا احترام نہیں کریں گے تو آنے والے وقت کی مشکلات کے ذمہ دار ہوں گے۔ میں خود ایک اردو بولنے والاہوں، اردو سے محبت رکھنے والا ہوں لیکن میں پورے خلوص اور ایمانداری کے ساتھ اس مسئلے میں بنگالی کی حمایت کرتا ہوں کیونکہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ مشرقی پاکستان اس ایک فروعی مسئلے کے باعث ناراض ہو۔ اس مسئلے کے حل کو موخر نہ کیا جائے اور اس ملک کی بقا، اتحاد، اس کے لوگوں کے مستقبل کے واسطے اس حل کی حمایت کی جائے۔ اگر انگریزی زبان یہاں بولی جا سکتی ہے، انگریزی میں اس ایوان میں بات کی جاسکتی ہے تو بنگالی میں کیوں نہیں، جو کہ 4 کروڑ افراد کی زبان ہے۔ میرا خیال ہے کہ نہ ہی اردو اتنی کمزور ہے اور نہ بنگالی کہ ان دونوں کے برابر درجے سے کسی ایک کو نقصان پہنچے گا یا دوسری ختم ہو جائے گی۔ ان صوبائیت پسندی کی دیواروں کو گرانے کیلئے اس مسئلے کا فوری حل ضروری ہے۔ اگر مشرقی پاکستان میں یہ قرارداد منظور ہوئی ہے اور یہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کی آواز ہے تو اس کو دبانا غلط ہے، اگر نہیں تو میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ ہمیں سوچ سمجھ کر فیصلہ لینا ہوگا، جذباتیت سے آگے نکل کے بات کرنی ہوگی۔ اگر اس معاملے کا سرد خانے کی نظر کیا جاتا رہا گا تو اس میں کسی فریق کی بھی بھلائی نہیں ہے۔ میں اپنے دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور اس معاملے کو سرد خانے میں نہ پھینکیں۔ “
پاک و ہند سے شروع ہونے والے لسانی تنازعے پاکستان کی تاریخ میں بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ زبان یوں تو محض ایک ذریعہ اظہار ہے، لیکن جب بات لسانی بنیاد پہ تقسیم کی آ جائے تو بات ذریعہ اظہار سے آگے چلی جاتی ہے۔ اردو زبان کی موجودہ حالت کو دیکھ کر یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ماضی میں ہم اس بنیاد پہ ہم خون خرابا دیکھ چکے ہیں۔ باقی زبانوں کی سرکاری سرپترستی تو ایک طرف رکھیے، یہاں قومی زبان ہی اس وقت دوسرے درجے پہ رکھی جاتی ہے۔
نوٹ:
یہ تحریر محض مادری زبان کی اہمیت اور اس دن کے پس منظر کو واضح کرنے کیلئے لکھی گئی ہے۔ میری تحقیق میری طرح ناقص ہو سکتی ہے لیکن مقصد کسی طور بھی اردو یا کسی اور زبان کی مخالفت یا حمایت نہیں ہے۔ قارئین اس تحریر میں موجود کسی بھی بیان کو میرے حوالے کے ساتھ یا اس کے بغیر استعمال کرنے سے گریز کریں، کیونکہ تمام مواد انٹرنیٹ پہ موجود معلومات پہ مبنی ہے اور انگریزی یا دوسری زبانوں سے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
مستقل لنک
بہترین و بروقت
مستقل لنک
آزاد ملک وچ ڄہڑی زبان لوکاں دی ہووے اوہو زبان قومی تے سرکاری زبان ہوندی ہے، قومی تے سرکاری زبان ہکا ہوندی ہے، اینکوں جمہوریت وی آہدے ہن، مقبوضہ تے غلام مُلکاں وچ عوام تے حکمراناں دی زبان وکھری ہوندی ہے۔ لوک آپݨی زبان کوں قومی آہدے ہِن۔ حکمران آپݨی زبان کوں قومی آہدے ہِن۔ حکمراناں دی زبان سرکاری تے دفتری زبان ہوندی ہے، تعلیم اکثر علاقائی زبان وچ زباناں وچ ہوندی ہے۔
حکومت پاکستان دے مطابق پاکستان دی علاقائی (تعلیمی)، قومی تے سرکاری زبان انگریزی ہے۔
پرائمری دے ہر ہر ٻال ، ہر چھوکری تے چھوکرے وچ بھلا ہک مادری زبان دے علاوہ بیاں کتݨان زباناں سکھݨ, لکھݨ،پڑھݨ، ٻولݨ تے سمجھݨ دی صلاحیت ھوندی اے؟ نوم چومسکی تے یونیسیف یونیسکو دے مطابق ٻالاں کوں صرف مادری زبان سکھاؤ۔
پاکستان دے متفقہ ١٩٧٣ دے آئین دی اٹھارویں متفقہ آئینی ترمیم دے سولاں سال د ی مفت تعلیم تے عمل موجودہ نظام وچ ممکن کائنی۔ تعلیم عام کرنڑ دی واحد صورت صرف اے ھے جو:
سکولاں کالجاں وچ تے سی ایس ایس وچ سرائیکی، پشتو تے سندھی کوں لازمی آپشنل مضمون بݨاؤ۔ سارے سکول، کالج تے مدرسے صرف ترائے قسماں دے ھوون۔
سرائیکی میڈیم،
پشتومیڈیم،
سندھی میڈیم۔
صرف ھک غیر ملکی زبان ناںویں کنوں شامل نصاب کرو۔
مستقل لنک
اس مفصل تبصرے پہ آپکا بہت شکریہ۔
بچوں کو صرف مادری زبان سکھانے والی بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ سکیولوں اور کالجوں میں علاقائی/مادری زبان میں تعلیم ہونی چاہیئے۔ لیکن میں پھر بھی اردو کی اہمیت سے انکار نہیں کروں گا۔ کیونکہ ایک ایسی زبان کا ہونا بھی ضروری ہے جو سارے ملک کی عوام کو یکساں طور پہ سمجھ آ سکے۔
ہمارے ساتھ یہاں بھارت کے بہر سے طلباء پڑھتے ہیں، جن میں شمالی اور جنوبی بھارتی دونوں شامل ہیں۔ چونکہ جنوبی بھارت میں ہندی زبان لازمی مضمون کے طور پہ نہیں ہے اس لئے بہر کم ایسے ہیں جو ہندی بولتے یا سمجھتے ہیں۔ زیادہ تر انگریزی میں ہی بات کرتے ہیں آپس میں۔ اگر ایک زبان رابطے کے طور پہ رکھنی ہی ہے تو انگریزی کیوں، ایسی زبان کیوں نہیں جو بہرحال سب کیلئے سیکھنا آسان ہے، جغرافیائی وجوہات کے سبب۔
میرے خیال میں ہمارے پاس اردو اس مقصد کیلئے موزوں ہے کیونکہ اس کا ذخیرہ الفاظ میں پاکستان کی باقی زبانوں سے بھی بہت الفاظ شامل ہیں جو اسے ایک عام آدمی کیلئے آسان تر بناتے ہیں۔