شاید آپ لوگوں نے کہیں پڑھا ہوگا کہ انسان نے جب معاشرے کی بنیاد رکھی تو اسنے آپس میں میل جول، اور احساسات کے تبادلے کیلئے آواز کا سہارا لیا۔ زمانہ قبل تاریخ میں یہ آوازیں مختلف جانداروں کی آوازوں سے مشابہ ہوتی تھیں اور انہی کی عادات و اطوار کی نقالی کا اظہار کرتی تھیں۔ جوں جوں انسان آگے بڑھتا گیا، بقول ڈاروِن، تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی زبان بھی ترقی کرتی گئی اور اس میں پیچیدہ احساسات و جذبات کی نمائیندگی بھی شامل ہوتی گئی۔ خیر یہ تو ایک وِیکی پیڈیائی سی تمہید ہے زبان کی تاریخ کے حوالے سے، جس میں بہت سوں کو بہت سے اختلافات ہو سکتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ زبان ان چند چیزوں میں سے ایک ہے جو انسان کو باقی مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔
انسان نے معاشرے میں رہنے کیلئے اور زیادہ افراد سے رابطے کیلئے زبان کا سہارا لیا۔ رابطے کو آسان سے آسان بناتا چلا گیا، اور جب اسے احساس ہوا کہ یہ تو زیادہ ہی آسان ہوگیا، اب تو ہر کوئی بول بول کے ایک دوسرے کا دماغ کھائے گا۔ بس یہ سوچ ذہن میں آتے ہی اس نے اپنے لئے چار لفظ الگ بنائے اور وہ صرف اپنی ڈائرکٹ معشوق کو سمجھائے، تاکہ باقی انسانوں کے پلے نہ پڑے، اور یہ لیجئے ایک نئی زبان ایجاد ہو گئی۔ بس پھر کیا تھا، ہر ایک نے اپنی اپنی ڈیڑھ لفظوں کی زبان کھڑی کر لی۔ ذرا فاسٹ فارورڈ کریں اور موجودہ دور میں آ جائیں، کہاں تو ایک بھی زبان نہیں تھی اور انسان ٹارزن کی طرح ’آؤوؤوؤوؤو‘ کی آواز نکال کر ہی پورے جنگل سے لائیو خطاب کر لیتا تھا اور کہاں اب ہزاروں کی تعداد میں موجود زبانیں! صرف بھارت میں ہی تقریباً ایک ہزار سے زاید زبانیں بولنے والے لوگ موجود ہیں۔
ذکر ہو زبانوں کا اور جرمن زبان کی بات نہ ہو، یہ ایسے ہی ہے جیسے تھانے کی بات ہو اور چِھتّر کا ذکر نہ کیا جائے۔ یوں تو جرمن زبان عام یورپی زبانوں کی طرح ایک زبان ہے اور یہاں جرمنی میں بچہ بچہ جرمن روانی سے بولتا ہے اور جب جرمن لوگ جرمن زبان بولتے ہیں تو ان کے ماتھے پہ پسینہ آتا ہے نہ ہی سانس پھولتی ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ انہیں جرمن زبان سیکھنی نہیں پڑتی، ہماری طرح!۔ جرمن بولنا شاید اتنا مشکل نہیں ہے جتنا جرمن سیکھنا کیونکہ جتنے ریگولر (regular) اور منظم جرمن لوگ ہیں، اتنی ہی اِرریگولر (irregular) اور غیر منظم ان کی زبان ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ زبانوں کی تخلیق کی وجہ جو بھی رہی ہو، ان کو مشکل سے مشکل بنانے کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایرا غیرا سمجھ نہ لے۔ اور جرمن لوگ تو تاریخی لحاظ سے بھی اس ”ایرا غیرا نتھو خیرا“ سِنڈروم میں مبتلا رہے ہیں۔ بس کچھ تاریخی وجوہات، کچھ زمینی حقائق، اور کچھ فضول کی توجیہات کے باعث جرمن زبان اپنے ’اعلی ترین‘ غیر منظم ڈھانچے اور پیچیدگی میں کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ ہماری مس حمیرا کے بقول روسی زبان میں ایک دو ’اصول‘ ایسے ہیں جو جرمن کی بے اصولی کو بھی پیچھے چھوڑتے ہیں۔ اور اس بات کی سچائی کو بھی تاریخی شواہد کے حساب سے پرکھا جا سکتا ہے۔ یہی دونوں قومیں شد و مد سے ایک دوسرے پہ سبقت لے جانے میں مشغول رہی ہیں۔ خیر جو جیتا اسی کی زبان سکندر!
بیرونِ ملک پاکستانیوں خصوصا طالبعلموں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم پہلے ہی دو کشتیوں کے سوار ہوتے ہیں، یعنی اردو اور انگریزی، پھر جب کوئی تیسری زبان آتی ہے تو ہمارے لئے سرکس کا بیلنس ایکٹ بن جاتا ہے۔ کھانا ہم نے سیب ہوتا ہے، سوچتے ہم ”ایپل“ ہیں اور بولنا ہمیں” آپفل“ پڑتا ہے (یہاں میں نے دانستاً سب سے آسان لفظ کی مثال دی ہے)۔ پڑھائی چونکہ ہم انگریزی میں کرتے ہیں اسلئے ہمیں جرمن زبان کا انگریزی سے موازنہ زیادہ آسان لگ رہا ہوتا ہے، حالانکہ قواعد کے اعتبار سے جرمن اردو سے زیادہ قریب ہے۔ اس موازنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ انگلش بھی چونکہ ہم نے سیکھی ہوتی ہے اسلئے انہی سیکھنے کے اصولوں کو ہم دوسری زبان پہ بھی لگانے کی کوشش کرتے ہیں (اور منہ کی کھانی پڑتی ہے!)۔ جرمن زبان ، جسے جرمن لوگ ’ڈوئچ‘ (Deutsch) کہتے ہیں، میں اسم یعنی noun کی تذکیر و تانیث موجود ہے اور اسے اسم سے پہلے لگائے جانے والے آرٹیکل سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اردو میں بھی ہر چیز مذکر یا مونث ہوتی ہے لیکن آرٹیکل نہیں ہوتا، جبکہ انگریزی اس قانون سے سرے سے ہی آزاد ہے۔ لہٰذا انگریزی سے موازنہ کرتے ہوئے آپ ہمیشہ جرمن اسموں کے آرٹیکل چھوڑ دیں گے، جو کہ جرمن گرامر کی اساس ہیں۔ یہی آرٹیکل اور ان کا استعمال جرمن گرامر کو اس حد تک پیچیدہ بنا دیتا ہے کہ بندہ پاگل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پہ جرمن زبان میں چمچ مذکر (der Löffel)ہے، کانٹا مونث (die Gabel)اور چھری بے جنس یعنی نیوٹر (das Messer) ہے، اور اس پہ ستم یہ کہ جملے میں ان اشیاء کی جگہ اور کردار کے حساب سے یہ آرٹیکل بدل بھی سکتا ہے۔ یعنی اگر کانٹا مفعول (Dative) کی جگہ استعمال ہوگا تو اسکی جنس تبدیل ہو کر مذکر ہو جائے گی! صرف کانٹے پہ ہی بس نہیں بلکہ ہر مونث حالتِ مفعولی میں مذکر بن جاتا ہے۔ اس بات کا نوٹس فیمینسٹ تنظیموں کو ضرور لینا چاہیئے اور خاص طور پہ اس مخصوص تنظیم کو جو یورپ میں ’احتجاج‘ کرنے میں بڑی مشہور ہے۔
یہ تو ہے آرٹیکل کا مسئلہ، جو شاید پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی جوں کو توں ہی رہے کیونکہ اس کا کوئی اصول نہیں، یہ جو ہے جیسے ہے کی بنیاد پہ یاد کرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جو چیز سب سے مشکل ہے وہ ہے اسم کی حالت یعنی فاعل یا مفعول جسے Nominativ, Dativ, Akkusativ , Genitivکہا جاتا ہے۔ جب بھی کسی ایک اصول کو رٹا لگا کر، سر کھپا کر سمجھنے کے بعد یہ محسوس ہو کہ واہ، یہ تو سمجھ آ گیا۔۔۔ اگلے ہی صفحے پہ لکھا ہوتا ہے کہ درج ذیل الفاظ بیان کئے گئے قانون سے مستثنیٰ ہیں، اور اگلے تین ورقوں پہ ایک سہ کالمی طویل لسٹ آپ کا منہ چڑا رہی ہوتی ہے۔ پھر اگر آپ کسی غیر مرئی طاقت کی مدد سے یہ لسٹ اور اس کے اصول یاد کر بھی لیں تو اس کے بعد باری آتی ہے حروفِ اضافت کی یعنی کہ prepositions، جو کہ شاید ہی کسی اور زبان میں اس قدر عجیب و غریب انداز میں بکھرے ہوئے ہوں۔ ان میں سے کچھ حروف کے آتے ہی سارے پچھلے بیان کردہ اصول ایک طرف رکھ دیئے جاتے ہیں اور ان کا اپنا ہی کوئی آئین لاگو ہو جاتا ہے۔
ہماری موجودہ استانی صاحبہ اکثر کہتی ہیں کہ جرمن لوگوں کو طویل الفاظ اور اس سے بھی طویل جملے پسند ہیں۔ الفاظ کی طوالت کا تو یہ سسٹم ہے کہ جرمن میں جو بھی مرکب الفاظ بنتے ہیں ان میں کسی قسم کی ڈیش، خالی جگہ نہیں ڈالی جاتی بلکہ ایک کے بعد ایک لفظ جوڑتے چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پہ ایک ملین سے کم کا کوئی بھی نمبر جب الفاظ میں لکھا جائے گا تو ہمیشہ ایک لفظ کے طور پہ لکھا جائے گا۔ اس لحاظ سے سب سے طویل نمبر 777،777 ہے۔ میں صرف سات سو ستتّر کی جرمن لکھ دیتا ہوں، اندازہ ہو جائے گا آپکو۔
Siebenhundertsiebenundsiebzig یہ لفظ 29 حروف کا ہے اور اس لمبائی کے الفاظ جرمن زبان میں عام نظر آتے ہیں۔ طویل ترین شائع شدہ لفظ شاید 80 حروف کا ہے اور گرامر کے مطابق اس سے بھی طویل الفاظ بنائے جا سکتے ہیں۔ جملوں کی طوالت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اخبار میں آدھے آدھے کالم پہ ایک ہی جملہ چل رہا ہوتا ہے۔ قواعد کی رو سے فعل جملے کے آخر میں لگایا جاتا ہے، یعنی کہ اگر آپ پڑھنا شروع ہو ہی گئے ہیں تو، یہ جانے بغیر کہ بات کس مضمون پہ ہو رہی ہے، آپ پڑھتے چلے جاتے ہیں اور آخر میں کہیں جا کر کوئی فعل لگا دیا جاتا ہے۔ اتنے میں آپ بھول بھی چکے ہوتے ہیں کہ بات کون کر رہا تھا!۔ اردو اور انگریزی میں بھی طویل جملے لکھے جاتے ہیں، خاص طور پہ بلاگز یا اخبارات کے کالم نویس تحریر کو انٹیلیکچوئل رنگ دینے کیلئے پیچیدہ ساخت کا جملہ لکھتے ہیں۔ لیکن جرمن زبان میں عام جملے بھی طویل اور یکے بعد دیگرے جوڑے گئے مختلف جملوں کو ملا کر بنائے جاتے ہیں۔
”جب اس نے رات کے اس پہر گلی میں ایک نہایت خوبصورت جدید تراش خراش، مہین کالی ساٹن کا لمبا گھیرے دار لباس پہنے گورنمنٹ افسر کی بیوی کو دیکھا تو۔۔۔۔۔۔ “
اس جملے کو لکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ اگر جرمن زبان سے آرٹیکل کا قضیہ نکال دیا جائے تو اردو میں اور اس میں کوئی اتنا خاص فرق نہیں ہے۔۔۔۔یعنی دونوں ہی شدید قسم کی مشکل ہیں، دوسروں کیلئے!
جرمن زبان میں ہر کام کے کرنے کیلئے ایک الگ سے فعل (verb) موجود ہے۔ جو کام اردو یا انگریزی میں ایک ہی لفظ کے ذریعے کئے جا سکتے ہیں، یہاں پہ ان کو کرنے کیلئے ایک نیا فعل یاد کرنا پڑتا ہے۔ ایک اور نئی چیز بھی ہے جو کہ میں نے اب تک کسی زبان میں نہیں سنی تھی، وہ ہیں ”قابلِ تقسیم الفاظ یا افعال“ ۔ ایسے افعال (verbs) جن میں سابقے لگے ہوئے ہوں، ان کو جملے میں توڑ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا لفظ ہے ’abfahren‘ اس میں ab سابقہ ہے جس کا مطلب ’سے‘ کے معنوں میں لیا جا سکتا ہے۔ fahren کا مطلب ہے ’گاڑی چلا کر جانا‘ یعنی پورے لفظ کا مطلب ہوا ’رخصت ہونا‘ یا ’چھوڑ کر جانا‘۔ اس کو استعمال کرنے کیلئے جملے کے شروع میں آدھا حصہ لگا دیا جاتا ہے اور جملہ جو کہ ظاہر ہے طویل ہوتا ہے، اس کے آخر میں باقی ماندہ فعل لگا دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال اردو میں ترجمہ کرنا ذرا مشکل ہے لیکن کوشش کرتا ہوں:
” سامان باندھا جا چکا تھا۔ وہ چلا ، اپنی ماں اور بہنوں کو بوسے دے کر، اور ایک بار پھر اپنے سینے سے لگا کر اپنی پیاری گریچن کو، جوکہ، سادہ سے سفید مسلن میں ملبوس تھی، اپنے گھنے بھورے بالوں میں ایک تنہا سا پھول سجائے سبکیاں بھرتی سیڑھیوں سے اتری تھی، گزشتہ شام کی ہولناکی سے اب بھی پیلی پڑ رہی تھی، چاہتی تھی کہ اپنا دکھتا ہوا سر سینے سے لگا لے اُس کے، جسے وہ اپنی زندگی سے بڑھ کر محبت کرتی تھی، گیا چھوڑ کر۔
بس آپ خود اندازہ لگا لیں ہماری حالت کا کہ کیا ہوتی ہوگی۔
(اس مضمون میں دی گئی چند مثالیں اور جملے مارک ٹوَین سے ماخوذ ہیں جو یہاں سے لئے گئے ہیں)
مستقل لنک
ہاہاہا ۔ مرحومہ پولش زبان کی یاد کرا دی
فعل حال میں فعل کو ادا کرنے کے چھ طریقے ہیں اور ان طریقوں کا کوئی اصول نہیں صرف زبانی یاد کریں کونسا کس اصول کے تحت ادا کیا جائے اور اس کے بعد مستشنیات۔ کر لو گل
مستقل لنک
مرحومہ کیوں کہا بھائی۔۔۔ آپ نے چھوڑا ہے صرف، دنیا نے تو نہیں چھوڑ دیا ناں!
پولش زبان کس خاندان سے تعلق رکھتی ہے ویسے؟
مستقل لنک
تو فیر کب شائع ہو را تیرا یہ لنگویسٹکس کا ریسرچ پیپر؟
اور جرمن زبان آتی ہے تو ”فرپسٹے“ کا مطلب بتا
ہارالڈ نے مجھے سب سے پہلا لفظ یہی سکھایا تھا
اگر نہیں آتا تو صرف قابل اعتماد لوگوں میں سے کسی سے پوچھیو
مستقل لنک
میرے خیال میں یہ کوئی لفظ نہیں۔۔۔ یا پھر ہم تک ابھی پہنچا نہیں! ہو سکے تو لفظ کو جرمن میں ہی لکھ دیں، تاکہ گوگل کیا جا سکے۔
مستقل لنک
بہت دن بعد آج دوبارہ بلاگ دیکھا تو یہ لفظ بھی سمجھ آ گیا۔ verpisst بولنے میں فر پِسٹ، مطلب ہے “دفعہ دور!” یعنی ‘Fu** off’ …. 😛 😀
مستقل لنک
بس اسی لیءے ہم زبان غیر ڈاءریکٹ میتھڈ سے سیکحنے کو ترجیھ دیتے ہیں
مستقل لنک
اور وہ کیا ہے بھلا؟؟
مستقل لنک
وہی جو شاکر نے کہا ہے کہ زبان پڑھو ، لکھو ، کھاو اور اوڑھو ، گرامر سے مکمل پرہیز کے ساتھ
مستقل لنک
میرے خیال میں ریاض شاہد صاحب کا اشارہ صوفیوں کے قدیم طریقہ کار یا موجودہ طریقہ واردات کی طرف ہے ، جس میں سینہ سے سینہ ملا کر علم منتقل کر دیا جاتا ہے-
پھر کیا ارادہ ہے؟
مستقل لنک
اچھا لکھا ھے لڑکے
مستقل لنک
شکریہ چچا جان!۔
مستقل لنک
زبان کی درس و تدریس کے حوالے سے ہمیں جو ٹریننگ ملی اس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ زبان کمیونیکیشن کے ذریعے آتی ہے گرامر کو رٹا لگانے سے نہیں۔ جب آپ کو استعمال کی ضرورت ہو گی تو سیکھنے کا محرک بھی یہی چیز بنے گی۔ اور اہل زبان والا ماحول ملے تو زبان سیکھنے کی رفتار اور معیار میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔
مستقل لنک
بالکل درست فرمایا آپنے۔ ضرورت کے مطابق بولنا ہم نے بھی سیکھ ہی لی ہے کسی نہ کسی طرح۔ درست بولنے کیلئے بہرحال گرامر سیکھنی ہی پڑتی ہے، یا پھر کم از کم 15 سال لگیں گے، اور پھر بھی مستقبل بعید کے جملے بنانے نہیں آئیں گے کہ ان کا استعمال بول چال میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ جبکہ کتابت میں جابجا ہوتا ہے۔
مستقل لنک
میں آج تک یہی سمجھتا رہا کہ جرمن بڑی بااصول زبان ہے ۔ اگر آپ جرمن کا موازنہ عربی سے کریں تو آپ کو گرائمر میں بہت مماثلت نظر آئے گی ۔ لاطینی زبان بھی ایسی ہی تھی جو ناپید ہو چکی ۔ البتہ گرائمر عربی اور جرمن دونوں زبانوں کی مُشکل ہے ۔ بے اصولی زبان انگریزی ہے جسے ہم بہت اچھا سمجھتے ہیں ۔ چھوٹی سی مثال ۔ بی یو ٹی بَٹ ۔ پی یو ٹی ۔ پُٹ ۔ این او ٹی ناٹ ۔ کے این او ٹی ناٹ ۔ ایس سی ایچ او او ایل سکول ۔ ایس سی ایچ ای ڈی یو ایل شَیڈُول
مستقل لنک
بااصول زبان ہے، لیکن اصولوں کا کوئی اصول نہیں ہے۔
باقی یہ جو آپ نے تلفظ کی مثال دی انگریزی کی، اس معاملے میں جرمن انتہائی بااصول اور آسان ہے۔ دنیا ادھر سے اُدھر ہو جائے لیکن لفظ کا تلفظ وہی رہے گا جیسے وہ لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس بارے میں اگلے حصے میں کچھ شامل کروں گا۔
مستقل لنک
مجھے ایک جلدی والا ضروری کام یاد آ گیا تھا تو ادھورا تبصرہ شائع کر کے چلا گیا تھا ۔ جس کے باعث شیڈول کے آخر والی ای بھی رہ گئی تھی ۔ مزید یہ کہنا تھا کہ جرمن زبان میں عربی کی طرح مؤنث و مذ کر ظاہر ہوتے ہیں اور بڑے اور چھوٹے کو مخاطب کرنے کا سلیقہ بھی ہے جیسے اُردو میں تم اور آپ جرمن میں دُو اور زی ۔ انگریزی کی طرح نہیں ہے کہ ہر ایک یُو ہوتا ہے ۔ جرمن میں ” بِتے“ یعنی انگریزی کے پلیز کا استعمال بہت کرتے ہیں اور بات بات پر اچھے طریقہ سے شکریہ ادا کرتے ہیں ”دانکے شَون“
مستقل لنک
جی، میں نے اسی لئے کہا کہ اردو سے موازنہ زیادہ فائدہ مند ہے جرمن کا، بجائے انگریزی کے۔
اور اس طرح کے ششکے زبان کو سلیقہ مند تو بنا سکتے ہیں، آسان نہیں۔ جیسے کہ اردو ہے، عمدہ زبان ہے لیکن سیکھنے والوں کیلئےآسان نہیں کہا جا سکتا۔
مستقل لنک
جرمن زبان بارے جو ہمارا زاتی تاثر تھا وہ آخر سچ ثابت ہو ہی گیا. غلطی ہم سے یہ ہوئی کہ زیر زمین ریل کے سفر دوران یہ پوسٹ پڑھ دی اور یہ اوکھے اوکھے قنون قیدے دیکھ میری یہ حالت ہو رہی کہ
I certainly need fresh air now: /
مستقل لنک
سنتے آئے ہیں کہ ڈُچ (جسے آپ ڈوئچ کہتے ہیں) اور کورین دنیا کی مشکل ترین زبانیں ہیں۔
جو بڑی مشکل سے ہضم ہوتی ہیں۔
خیر، کوریا کے بعد آپ کی پوسٹ پڑھ کر اب جرمنی جانے کا پروگرام بھی کینسل کردیا ہے :ڈ
مستقل لنک
سیکھنے کے لحاظ سے شاید کورین اور جاپانی مشکل ترین زبانیں ہیں۔ جبکہ روسی ، جرمن اور عربی گرامر میں سب سے اوپر ہیں۔ بولنے لائق جرمن سیکھنا زیادہ مشکل نہیں ہے، لہٰذا جرمنی کو یہ شرف بخش سکتے ہیں آپ!
مستقل لنک
اسے پڑھ کر تو بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ
کتنی پیاری زبان ہے اردو
مستقل لنک
اردو كى بات هى اور ہے. . . مضمون زبردست لكها بهيا