لالہ لینڈ Lala-land
مجھے اصلی والا رشک محسوس ہوتا ہے ان لوگوں پہ جب کو یہ معلوم ہو کہ وہ باڑھ کے کونسی طرف کھڑے ہیں! ہمیں (ہمیں= میں اور م، ق، س، ن، ع، ر، ت، ی، ہ، و، ج، ک وغیرہ) تو آج تک یہ ہی نہیں پتا چلا کہ یہ طالبان ہیں کیا؟ کسی نے کہا کہ طالبان کا لغوی مطلب ہے ”طلب کرنے والا“ یعنی یہ لوگ اسلام کی طلب رکھتے ہیں! کسی نے کہا کہ یہ لوگ افغانستان میں اقتدار کی طلب رکھتے ہیں۔ تاریخ بھگارنے والوں نے کہا کہ سوویت قبضے کے خلاف امریکی سپانسر شدہ افغان جہاد میں ان کو تخلیق کیا گیا۔ کسی نے تردید کی کہ نہیں یہ تو اس وقت سے موجود ہیں جب کابل میں خواتین شٹل کاک برقعے کی جگہ سکرٹ پہنتی تھیں اور قندھار اپنے ’اناروں‘ کی وجہ سے مشہور تھا۔ ایک ڈاکومینٹری میں بتایا گیا کہ طالبان پاکستان سے درآمد شدہ ہیں۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ جب یہ گروپ امریکہ کے ہاتھ سے نکل گیا تو دہشت گرد قرار پایا۔ نائن الیون سے پہلے مجھ سمیت کئی لوگوں نے طالبان کا نام بس باڑے سے اسمگل شدہ سامان لا کر بیچنے والوں سے ہی سنا تھا۔ اور جن کو اس کاروبار میں فائدہ ہوتا تھا ان کے مطابق طالبانی دور افغانستان تو کیا پوری دنیا کہ سنہرے ترین ادوار میں سے ایک تھا۔ قصہ گو کہتے تھے کہ وہاں ہر طرف راوی چین لکھتا تھا۔ ہر طرف اسلامی شریعت کا بول بالا تھا، جس کی واحد مثال تمام راویوں نے یہی قلم بند کی کہ وہاں ”شرعی سزائیں“ دی جاتی تھیں اور ہر مرد کی داڑھی ہوتی تھی۔ میں تب بھی اور اب بھی یہی سوچتا ہوں کہ کیا اسلامی شریعت کی خوبصورتی اور امتیاز کا اندازہ انہی باتوں سے لگایا جا سکتا ہے؟! یہاں میں واضح کر دوں کہ میں نائن الیون یعنی کہ میڈیا کی پراپیگنڈا جنگ سے پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ اس وقت واحد ذریعہ ورڈ آف ماؤتھ اور اسمگلر ہی تھے۔[مکمل تحریر پڑھیں]