موبائل فون سروس اور پاکستان
دیکھا جائے تو یہ قوم کے انسانی و نسوانی و جوانی حقوق پر براہِ راست ڈاکہ زنی کی ایک گھناؤنی سازش ہے۔ قوم کے ‘کھل کر بولنے’، ‘سب کہہ دینے’ اور ‘اور سنانے’ کی دل پسند تفریح پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ ہماری افسردہ و پژمردہ قوم کیلئے چند ایک ہی تو تفریحیں رہ گئی ہیں، اب ان پر بھی قدغن لگائے جا رہے ہیں۔ اس بھری دنیا میں جہاں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اور ہر کوئی دوسرے کی ٹانگ کھینچنے پر لگا ہوا ہے، ایک موبائل فون ہی تو دکھ درد کا ساتھی ہے جو ساتھ نبھاتا ہے ہر جگہ!
اور تو اور اب تو موبائل فون ہماری عائلی زندگی میں بھی ایک اہم رکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ پہلے زمانے میں آسمانوں پر بنے ہوئے رشتے ڈھونڈنے کا جو کام محلے کی خالائیں، آپائیں اور بُوائیں کیا کرتی تھیں، اب وہی کام با آسانی ایس ایم ایس سروس کر سکتی ہے۔ اور رہی بات لیٹ نائٹ کال پیکجز کی، یہ تو ‘انڈر اسٹینڈنگ’ پیدا کرنے کا ایک ایسا آسان طریقہ ہے جو ہماری مشرقی روایات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایجاد کیا گیا ہے کہ بغیر دیکھے اور بغیر ملے ہی آپ کو سب کچھ پتا چل جاتا ہے..!!.
اب ذرا بات ہو جائے موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کی، تو جناب یہ تو ان کا فرضِ عین ہے کہ قوم کو وہ وہ سہولیات بھی فراہم کی جائیں جنکی انہیں ضرورت نہیں ہے(لیکن ظاہر ہے کبھی بھی مستقبل قریب میں پڑ سکتی ہے)!۔
پہلے پہل تو جب آپ کال سینٹر کا نمبر ملاتے تھے تو ایک جذبات سے عاری مشینی آواز آپ کو ہدایات دیتی تھی لیکن اب تو بھائی اس میں بھی حتی الامکان جذباتیت بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، انسانوں کو مشینوں کے ذریعے ‘سیٹسفائی’ کرنے کا جو کام مغرب میں عام ہے، اب یہاں بھی فی الحال آواز کی شکل میں دستیاب ہے۔ نہیں یقین تو ذرا ٹیلی نار کی ہیلپ لائن 345 ڈائل کیجئے۔ پہلے آواز آیا کرتی تھی کہ یہ کرنے کیلئے وہ دبائیں، وہ کرنے کیلئے یہ دبائیں، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اب خاصی جذباتی سی دوشیزگی بھری آواز میں یہ کہا جاتا ہے کہ:
’’ مجھ سے یہ کروانے کیلئے وہ دبائیں! ۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے وہ کروانے کیلئے یہ دبائیں! ۔۔۔۔یا اور کوئی سہولت حاصل کرنے کیلئے بس کان میں بتا دیں!!!۔۔۔‘‘
اب یقیناً باقی سروسز کی طرف سے اس ‘‘خصوصی پیکج’’ کو کاٹنے کیلئے آنے والے اقدامات کا انتظار رہے گا اور امید بھی کچھ زیادہ کی ہے!!!۔