ایک دفعہ میں نے ذکر کیا تھا کہ مجھے بچپن سے ہی ڈائری لکھنے کا بہت شوق تھا۔ اور میں ڈائری میں مختلف رسالوں اور ڈائجسٹ وغیرہ سے شاعری نوٹ کیا کرتا تھا۔ ایک دو دفعہ میں نے ڈائری کے ایک دو صفحے اپنے بلاگ کی بھی نذر کئے۔ آج میں عادل بھیا کا بلاگ دیکھ رہا تھا جہاں انہوں نے اپنی ایک تقریبا غزل شیئر کی ہے۔ تو سوچا میں بھی اپنی بونگیاں بلاگ کے قارئین کی نذر کروں۔ تو لیجئے میری ایک عدد آزاد نظم نما نظم پیش ہے۔
خواہش
اے میرے ہم نشـیں!۔
کبھی ایسا بھی ہو
کہ یہ جسم و جاں
تیرے اپنے ہی ہوں
مگر
جب تُو دیکھے کوئی آئینہ
تو چہرہ میرا
ہو ترے روبرو
تُو کرے گفتگو
گفتگو تُو کرے اور ایسے کرے
کہ سُننے والے کرنے لگیں یہ گماں
کہ تُو تجھ میں نہیں ہے
بـــس!
میں ہوں وہاں۔ ۔ ۔
یہ ایک تقریبا نثری/آزاد نظم ہے۔ اس سے پہلے میں اردو محفل میں اپنی یہ نظم شایع کر چکا ہوں، اس لئے ہو سکتا ہے آپ میں سے کسی نے پہلے بھی پڑھی ہو۔ یہ نظم میں نے بہت پہلے لکھی تھی، صحیح تاریخ مجھے یاد نہیں اب۔
مستقل لنک
نہایت اعلی ۔ سیلف انڈیکیٹنگ سائیکل کو خود سے ہی پلیس کیا تھا نا ؟
مستقل لنک
کاش میں کبھی آپکے تبصرے کو سمجھنے اور اس کا جواب دینے کے قابل ہو سکوں۔۔۔۔!
مستقل لنک
آپکے استعمال کیئے ہوئے الفاظ سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی یہ نثری نظم آپکے اپنے بارے میں ہے ۔
مستقل لنک
نہیں۔۔۔ یہ نظم اس زمانے کی ہے جب ایک ننھا سا حادثہَ قلبی رونما ہوا تھا۔۔ ویسے ہو سکتا ہے کہ میرے لا شعور میں اس وقت بھی میں ہی ہوں، اور میں اپنے ہی کسی ہمزاد سے مخاطب ہوں۔
اینڈلیس پاسی بیلیٹیز!
مستقل لنک