(
مختصر مختصر سے منتقل شدہ)
“انجینئرنگ” دو الفاظ پہ مشتمل ایک اصطلاح ہے۔
‘انجن’ اور ‘رِنگ’ ؛ انجن کے بارے میں سب لوگ جانتے ہی ہوں گےکہ یہ ایک ایسی چلتی پھرتی شے ہے جو “چھُک چھُک ” کی رٹّی رٹّائی آواز نکالتا آگے یا پیچھےکی سمت میں رواں رہتا ہے۔
رِنگ ایک ایسی گول شے ہے جس کے سِرّے آپس میں ملے ہوتے ہیں۔ یوں اس لفظ کا مطلب نکلتا ہے کہ انجینئرنگ کسی انجن یا اس سے مشابہ (یعنی کسی بھی چلتی پھرتی!) چیز کا ایک گول دائرے (یعنی رِنگ) میں چکر لگائے جانا اور رٹّی رٹّائی آوازیں نکالے جانے کا نام ہے۔۔۔۔
مندرجہ بالا تفصیل سے انجینئرنگ کرنے والوں کے بارے میں بھی پتا چلتا ہے کہ انجینئرنگ کرنے والے بھی گویا ایک آواگونی چکر یعنی رِنگ میں مقیّد ہیں جو پہلا سیشنل ، دوسرا سیشنل اور ٹرمینل یعنی فائنل امتحان ( یونیورسٹی طلباء خصوصاً کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طلباء ان اصطلاحات سے بخوبی واقف ہوں گے ) کے تین تکلیف دہ ادوار پر مشتمل ہے۔ (بہت سے تعلیمی اداروں میں دو ادوار پر مشتمل “چکر” بھی رائج ہے!) یہ مخلوق یعنی انجینئر بھی انجن کی طرح اپنی رِنگ نما پٹری پر کولہو کے بیل کی مانند، ان تین یا دو اسٹیشنوں کے درمیان گھومتے رہتے ہیں۔ غصّے سے دھواں دھواں ہونا اور احتجاجاً ایک ہی طرح کی آوازیں نکالنا بھی ان کا خاصہ ہے۔ ۔ ۔ ۔لیکن انجن کی طرح ان کے شور سے بھی کوئی فائدہ یا نقصان نہیں ہوتا۔ اس انجن سے منسلک ریل (یعنی بستہ یا تھیلے) میں کئی کورس کی کتابیں سواریوں کی صورت اترتی چڑھتی رہتی ہیں۔ ۔ ۔ یوں جب یہ انجن کم و بیش ( جس میں بیشی کے امکانات زیادہ ہیں!) چار سال لگاتار رِنگ میں گھومتے رہنے کے بعد تھک یعنی “ریٹائر” ہو جاتا ہے تو اس کے آخر میں حرف “ر” کا اضافہ کر دیا جاتا ہے جو اسکی جسمانی حالت سے زیادہ ذہنی حالت کو بیان کرتا ہے۔ ۔ یعنی کہ اب وہ انجن(ر) بن گیا ہے (جیسا کہ روایتاً تھک جانے والے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے!) ۔ ۔ ۔ اور اب اگر اس لفظ اور ‘اعزاز’ کو ملا کر پڑھیں گے تو عرفِ عام میں “انجینئر” کہلائے گا۔