زبان غیر میں (1)
شاید آپ لوگوں نے کہیں پڑھا ہوگا کہ انسان نے جب معاشرے کی بنیاد رکھی تو اسنے آپس میں میل جول، اور احساسات کے تبادلے کیلئے آواز کا سہارا لیا۔ زمانہ قبل تاریخ میں یہ آوازیں مختلف جانداروں کی آوازوں سے مشابہ ہوتی تھیں اور انہی کی عادات و اطوار کی نقالی کا اظہار کرتی تھیں۔ جوں جوں انسان آگے بڑھتا گیا، بقول ڈاروِن، تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی زبان بھی ترقی کرتی گئی اور اس میں پیچیدہ احساسات و جذبات کی نمائیندگی بھی شامل ہوتی گئی۔ خیر یہ تو ایک وِیکی پیڈیائی سی تمہید ہے زبان کی تاریخ کے حوالے سے، جس میں بہت سوں کو بہت سے اختلافات ہو سکتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ زبان ان چند چیزوں میں سے ایک ہے جو انسان کو باقی مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔
انسان نے معاشرے میں رہنے کیلئے اور زیادہ افراد سے رابطے کیلئے زبان کا سہارا لیا۔ رابطے کو آسان سے آسان بناتا چلا گیا، اور جب اسے احساس ہوا کہ یہ تو زیادہ ہی آسان ہوگیا، اب تو ہر کوئی بول بول کے ایک دوسرے کا دماغ کھائے گا۔ بس یہ سوچ ذہن میں آتے ہی اس نے اپنے لئے چار لفظ الگ بنائے اور وہ صرف اپنی ڈائرکٹ معشوق کو سمجھائے، تاکہ باقی انسانوں کے پلے نہ پڑے، اور یہ لیجئے ایک نئی زبان ایجاد ہو گئی۔ بس پھر کیا تھا، ہر ایک نے اپنی اپنی ڈیڑھ لفظوں کی زبان کھڑی کر لی۔ ذرا فاسٹ فارورڈ کریں اور موجودہ دور میں آ جائیں، کہاں تو ایک بھی زبان نہیں تھی اور انسان ٹارزن کی طرح ’آؤوؤوؤوؤو‘ کی آواز نکال کر ہی پورے جنگل سے لائیو خطاب کر لیتا تھا اور کہاں اب ہزاروں کی تعداد میں موجود زبانیں! صرف بھارت میں ہی تقریباً ایک ہزار سے زاید زبانیں بولنے والے لوگ موجود ہیں۔
ذکر ہو زبانوں کا اور جرمن زبان کی بات نہ ہو، یہ ایسے ہی ہے جیسے تھانے کی بات ہو اور چِھتّر کا ذکر نہ کیا جائے۔[مکمل تحریر پڑھیں]