انسان کی زندگی میں خواہشات کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اس کی سوچ کی پرواز کبھی اس کی ‘اوقات’ کی پابند نہیں ہوتی اور ہمیشہ حدود و قیود سے آزاد ہو کر بلند ہوتی ہے۔ معاشرے کی بقا اور ترقی اسی پرواز کی محتاج ہے۔ لیکن اس پرواز کے ساتھ ایک اور احساس بھی بیدار ہوتا ہے جسے انگریزی میں نوسٹیلجیا (Nostalgia) اور اردو میں پتا نہیں کیا کہتے ہیں (ماضی پرستی؟) ۔ انسانی فطرت کسی حال میں بھی خوش نہیں رہنے دیتی اور ماضی کی یاد اس کو دیوانہ کیے رکھتی ہے۔
خیر وقت وقت کی بات ہے، اسی بات پہ ابنِ انشاء کی ایک خوبصورت نظم جو ہمیشہ سے میری پسندیدہ رہی ہے۔
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے مین پہنچا ہُمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ہر اک شے پہ مگر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لئے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
خیر، محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
جو چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
جو چوہوں تو سارا جہاں مول لوں
نارسائی کا جی میں اب دھڑکا کہاں
پر وہ چھوٹا سا، الہڑ سا لڑکا کہاں!۔
مستقل لنک
اسے ” فُرقتِ ماضی ” کہتے ہيں
مستقل لنک
بہت شکریہ افتخار صاحب۔
مستقل لنک
مشتاق احمد یوسفی صاحب نے اس کے لیے ایک بہترین اصطلاح وضع کی ہے
” یادش بخیریا”
افتخار اجمل صاحب نے بھی خوب ترجمہ کیا!
مستقل لنک
واہ! یادش بخیریا۔۔۔ یہ کمال کا ترجمہ ہے۔
بلاگ پر خوش آمدید۔
مستقل لنک
بچپن یاد دلایا آپ نے ۔ ۔ ۔
مستقل لنک