پہلی نظر میں تو عنوان میں بلاگستان کی جگہ پاکستان نظر آتا ہے کہ مسائل اس میں بھی ہم آہنگی کے ہی پائے جاتے ہیں، یعنی ہم آہنگی نہ ہونے کے۔۔۔۔خیر، موضوع کی جانب آتے ہیں:
کچھ لوگ بلاگ لکھتے وقت ایک خاص ٹون اپناتے ہیں اور ان کے بلاگ کے حرف حرف سے کسی ایک خاص بندے کو نشانہ بنانے کی بُو اس قدر واضح طور پہ آ رہی ہوتی ہے کہ آپ نہ چاہتے ہوئے بھی ہر لفظ کو ایک خاص تناظر میں ہی پڑھتے ہیں۔ اظہارِ خیال کا مقصد یہ ضرور ہے کہ آپ اپنے خیال کا اظہار کریں لیکن اگر کسی شخص کی کوئی مخصوص بات آپکو بری لگی ہے تو اس کا اظہار کرنے کے کئی ایک بہتر طریقے موجود ہیں۔ یہاں جو طریقہ رائج ہو رہا ہے اس میں آپ ہر بات ایک خاص انداز سے شروع کرتے ہیں اور اس انداز سے کہ ہر کوئی بخوبی اندازہ لگا سکے کہ آپ کس کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، یعنی کہ لوگوں کو اصل میں نظریے سے اختلاف نہیں بلکہ کسی ایک شخص کے اس نظریےکو پیش کرنے سے اختلاف ہوتا ہے۔۔۔۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اگر ایک بات آپکو بری یا غلط معلوم ہوتی ہے تو اپنے تبصرے یا پوسٹ میں اس بات کا ذکر کریں اور اس کی تردید کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔۔۔ چلیں اگر تڑکہ ہی لگانا ہے تو اس انداز میں لگائیں کہ بات میں مزاح یا طنز یا دونوں شامل ہو جائیں لیکن یہ جو “ٹارگٹ کلنگ” والا رویہ ہے یہ تو زیادتی ہے نا!!۔
میٹرک میں ہماری درسی کتاب میں ایک مضمون شامل تھا(ٹھیک سے یاد نہیں شاید سر سید احمد خان کا تھا)۔ اس میں بھی ایسے ہی رویے کا ذکر ہے، جو کہ پڑھے لکھے لوگوں میں اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب کوئی ان کی رائے سے اختلاف کرے اور خاصی واضح تصویر کشی کی گئی ہے اس طرح کے “ٹاکروں” کی اور اس کا موازنہ کتوں کی لڑائی سے کیا گیا تھا۔۔۔ گو کہ انٹرنیٹ آپ کو براہ راست گتھم گتھا ہونے سے بچا لیتا ہے لیکن منہ سے کف ، آنکھیں لال ، تیوریوں پہ بل، آستین چڑھی ہوئی بہرحال پوسٹوں سے بھی محسوس ہو ہی جاتی ہیں۔۔۔
جہاں تک باہمی ہم آہنگی کی بات ہے تو جہاں دو آدمی ہوں گے وہاں دو رائے بھی ہو ں گی، اور یہی مختلف خیالات ہی مل کر تو اس دنیا کو مکمل کرتے ہیں۔
ع گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن
بلاگنگ کا مقصد اپنے خیالات کو دوسروں تک رسائی دینا ہی ہے لیکن آپ یہاں دوسروں کی جڑیں کاٹ کر اپنے پودے کے چڑھنے کی امید نہیں رکھ سکتے۔ آپ سنییں گے تو ہی کوئی آپکی سنے گا۔ اگر آپ ایک پوسٹ میں کسی ایک مخصوص بات کی نشاندہی کرتے ہیں تو وہ ایک جہت تک محدود ہوتا ہے لیکن جب اس پہ مختلف لوگوں کے تبصرے آتے ہیں جن میں نئی نئی باتیں اور مزید کئی در وا کئے جاتے ہیں تو اصل میں آپ ہی کی ذہنی نشونما ہوتی ہے، اگلی بار جب کوئی نئی پوسٹ سامنے آتی ہے تو اس میں لا شعوری طور پر ان تبصروں سے حاصل کیا گیا کوئی نہ کوئی سبق ضرور شامل ہوتا ہے، یہ میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے، خواہ وہ ایک” مسکراہٹ” کا اضافہ ہی کیوں نہ ہو!
میرے نزدیک یہی وہ باہمی ہم آہنگی ہے جس کی ضرورت ہر اس جگہ ہے جہاں آپ اکیلے نہیں ہیں۔
خیالِ خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس، لگے نہ ٹھیس ان آبگینوں کو
مستقل لنک
بلکل ٹھیک!
مستقل لنک
بالکل صحیح کہا یار
پر ہم لوگ دوسروں کی بات سننا ہی گوارا نہیں کرتے
سمجھنا تودور کی بات ہے
ہے ناں؟
مستقل لنک
جعفر صاحب ایک دوسری جگہ ٹھیک فرماتے ہیں۔
ایسی تحاریر کو کوئی منہ ہی نہ لگائے تو لکھنے والے صاحب کو خود ہی ہوش آ جائے گا۔
مستقل لنک
*عثمان نامہ: بلاگ پہ خوش آمدید۔۔
*ڈفر: جی ہاں!
بات یہ ہے کہ فیر اس بلاگ شلاگ کے چکر میں پڑنے کی ہی کیا ضرورت ہے، جب سننی ہی نہیں تو۔۔۔ "منجمد صفحات" بنائیں، لوگ پڑھیں، گالیاں دل ہی دل میں دیں اور کلوز پہ کلک مار دیں۔۔بس!
ایک اور بات۔۔۔ بات کرنے کا انداز ایسا ہو کہ اگلا سننے پہ مجبور ہو۔۔لٹھ مار انداز پہ تو بندے نے تپنا ہی ہے ناں جی۔۔!
*یاسر صاحب: ہاں، یہ بھی ایک اچھا حل ہے۔۔
مستقل لنک
ہم آہنگی کیوں ہو؟ ہم انسان ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔