اردو ہے جس کا نام
۔(مختصر مختصر سے منتقل شدہ)
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
لو جی! یہ کیا بات کر دی؟ اردو سیکھنا کوئی مشکل کام ہے۔ ۔ ۔ ہمارے پاکستان میں تو بچہ بچہ اردو بولتا ہے!۔ ۔ ۔ اور تواور میرا ڈیڑھ سال کابھتیجا بھی بہت شُستہ اردو بولتا ہے! بس ذرا ‘س’، ‘ش’ اور ‘ذ’،’ز’،’ج’،’ظ’ اور ‘ض’ میں تمیز نہیں کر سکتا ٹھیک سے۔ ۔ ۔!
خیر یہ تو ‘ ایکسٹرا پرافیشنسی’ کے زمرے میں آتا ہے۔ ہاں تو بات ہو رہی تھی اردو سیکھنے سکھانے کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو قصہ اس اجمال کا کچھ یوں ہے کہ جب ہمارے بڑے بھائی صاحب تقریباً سات سال پہلے وطن عزیز سے پردیس گئے تو وہاں سے واپسی پر ایک عدد ولندیزی خاتون کو ہماری بھابھی بنا کر پاکستان لائے [سچے اور پکے پاکستانی ہونے کی نشانی۔] اب پاکستانیوں کی غیر ملکی زبان سیکھنے کی “لرنِنگ کروّ”(سیکھنے کی صلاحیت کا گراف) کچھ زیادہ ہی ہے لہٰذہ ہوا یہ کہ وہ تو اردو میں بس “سلام لیکم” ، “کی حال اے؟” یا “ٹھیک او ” ہی سیکھ سکیں لیکن ہم کافی استفادہ کر گئے!
یوں بھی جناب اردو کی تو کیا ہی بات ہے، منہ اور حلق کا شائد ہی کوئی حصہ ہو گا جہاں حروفِ تہجی میں سے کسی کی رسائی نہ ہو۔ ! اور سونے پہ سہاگہ بچپن میں مسجد کے مولوی صاحب نے” چنگی طرح” سمجھا بجھا کر ش، ق درست کروائے تھے۔ اب بیچارے جرمن بولنےوالوں کا کیا قصور کہ ان کی زبان میں ۲۶ یا زیادہ سے زیادہ ۳۰ (کچھ واول حروف بھی ہیں ) حروف جتنی لچک ہے!!
جن میں سے کچھ تو ایک سی آوازیں نکال کے ہی خاموش ہو جاتے ہیں۔ ۔ اب باقی بچنے والے بھی اردو کی ‘ر’، ‘ج’، ‘چ’، ‘ز’، ‘ذ’، اور تو اور ‘ی’ کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے۔ ۔ ۔ ہاں ، لفظ” نہیں ” کا پنجابی ہم پلہ لفظ ” نئین” موجود ہے اور مطلب بھی نفی ہی ہے۔ ۔ ۔یوں کچھ ملے جلے رجحان کے ساتھ وہ “اِک، دو، تِن” کرنا تو سیکھ ہی جاتے ہیں۔ ۔
بقول غیر اردو یافتہ افراد کے سب سے بڑی مشکل اردو عربی یا فارسی سیکھنے کی یہ ہے کہ ان کے حروف مفرد حالت میں اور ہوتے ہیں جبکہ الفاظ میں ان کا رنگ تو خیر نہیں ‘انگ’ اور ڈھنگ ضرور بدل جاتا ہے! اب ‘ج’ کو ہی لیجیے، تنہائی میں تو پیٹ نکال لیتی ہے، جیسے ہی کوئی دوسرا حرف دیکھتی ہے ایسے سمٹ جاتی کہ محض نقطہ ہی رہ جاتا ہے اور ‘ر’ تو مزید “گِر” جاتی ہے!
اسی طرح باقی حروف بھی عجیب و غریب ہیئت ِظاہری و باطنی رکھتے ہیں۔ اب ہماری بھابھی صاحبہ کو اردو سیکھنے کا شوق پھر سے پیدا ہو گیا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے کوئی رومن اردو میں اردو سیکھنے کی کتاب ہونی چاہئے، تا کہ وہ الفاظ کو پڑھ سکیں ناکہ ان کی اشکال میں ہی گم ہو جائیں۔ اب انہیں میں یہ کیسے بتاؤں کہ میں نے تو آج تک کوئی “اردو سیکھیں” نامی کتاب عربی رسم الخط میں نہیں دیکھی تو رومن میں کہاں سے لاؤں! یہاں”انگریزی سیکھیں، صرف ایک ہفتے میں”، “انگلش ٹیوٹر”، “انگلش گرو” ،”انگریزی بولیں ،امریکیوں کی طرح” وغیرہ، تو ہر شہر کے ‘اردو بازار’ میں با آسانی ملتی ہیں لیکن اردو کی خرید و فروخت کا بہرحال کوئی رجحان نہیں پایا جاتا۔ ۔ ۔ ۔!!خصوصی نوٹ: اس مضمون میں اگر کوئی اردو املاء کی غلطی پائی جائے تو اسے کلیدی تختے کے لے آؤٹ کی غلطی سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ اگر کسی کے پاس “رومن اردو” سیکھنے کا کوئی نسخہ موجود ہو تو ضرور بتائے، اردو سیکھنا سکھانا ایک کارِخیر ہے خواہ رومی ہو کہ رازی!
یوں بھی جناب اردو کی تو کیا ہی بات ہے، منہ اور حلق کا شائد ہی کوئی حصہ ہو گا جہاں حروفِ تہجی میں سے کسی کی رسائی نہ ہو۔ ! اور سونے پہ سہاگہ بچپن میں مسجد کے مولوی صاحب نے” چنگی طرح” سمجھا بجھا کر ش، ق درست کروائے تھے۔ اب بیچارے جرمن بولنےوالوں کا کیا قصور کہ ان کی زبان میں ۲۶ یا زیادہ سے زیادہ ۳۰ (کچھ واول حروف بھی ہیں ) حروف جتنی لچک ہے!!
جن میں سے کچھ تو ایک سی آوازیں نکال کے ہی خاموش ہو جاتے ہیں۔ ۔ اب باقی بچنے والے بھی اردو کی ‘ر’، ‘ج’، ‘چ’، ‘ز’، ‘ذ’، اور تو اور ‘ی’ کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتے۔ ۔ ۔ ہاں ، لفظ” نہیں ” کا پنجابی ہم پلہ لفظ ” نئین” موجود ہے اور مطلب بھی نفی ہی ہے۔ ۔ ۔یوں کچھ ملے جلے رجحان کے ساتھ وہ “اِک، دو، تِن” کرنا تو سیکھ ہی جاتے ہیں۔ ۔
بقول غیر اردو یافتہ افراد کے سب سے بڑی مشکل اردو عربی یا فارسی سیکھنے کی یہ ہے کہ ان کے حروف مفرد حالت میں اور ہوتے ہیں جبکہ الفاظ میں ان کا رنگ تو خیر نہیں ‘انگ’ اور ڈھنگ ضرور بدل جاتا ہے! اب ‘ج’ کو ہی لیجیے، تنہائی میں تو پیٹ نکال لیتی ہے، جیسے ہی کوئی دوسرا حرف دیکھتی ہے ایسے سمٹ جاتی کہ محض نقطہ ہی رہ جاتا ہے اور ‘ر’ تو مزید “گِر” جاتی ہے!
اسی طرح باقی حروف بھی عجیب و غریب ہیئت ِظاہری و باطنی رکھتے ہیں۔ اب ہماری بھابھی صاحبہ کو اردو سیکھنے کا شوق پھر سے پیدا ہو گیا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے کوئی رومن اردو میں اردو سیکھنے کی کتاب ہونی چاہئے، تا کہ وہ الفاظ کو پڑھ سکیں ناکہ ان کی اشکال میں ہی گم ہو جائیں۔ اب انہیں میں یہ کیسے بتاؤں کہ میں نے تو آج تک کوئی “اردو سیکھیں” نامی کتاب عربی رسم الخط میں نہیں دیکھی تو رومن میں کہاں سے لاؤں! یہاں”انگریزی سیکھیں، صرف ایک ہفتے میں”، “انگلش ٹیوٹر”، “انگلش گرو” ،”انگریزی بولیں ،امریکیوں کی طرح” وغیرہ، تو ہر شہر کے ‘اردو بازار’ میں با آسانی ملتی ہیں لیکن اردو کی خرید و فروخت کا بہرحال کوئی رجحان نہیں پایا جاتا۔ ۔ ۔ ۔!!خصوصی نوٹ: اس مضمون میں اگر کوئی اردو املاء کی غلطی پائی جائے تو اسے کلیدی تختے کے لے آؤٹ کی غلطی سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ اگر کسی کے پاس “رومن اردو” سیکھنے کا کوئی نسخہ موجود ہو تو ضرور بتائے، اردو سیکھنا سکھانا ایک کارِخیر ہے خواہ رومی ہو کہ رازی!