مریخ کے پانی کی کہانی
نظام شمسی کا چوتھا سیارہ مریخ، زمانہ قدیم سے ہی انسانوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ قدیم مصری تہذیب سے یونانی اور پھر رومی تہذیب میں بھی مریخ داستانوں اور اساطیر کا حصہ رہا ہے۔ مریخ کو ہر چند سال بعد صاف آسمان پر با آسانی دیکھا جا سکتا ہے اور اس کی سرخ رنگت کی وجہ سے قدیم رومیوں کے ہاں اس کو جنگ اور تباہی کے خدا “مارس” کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہی قدیم نام انگریزی سمیت مختلف زبانوں میں اب بھی موجود ہے اور اسی کی مناسبت سے انگریزی مہینے مارچ کا نام رکھا گیا۔ ♂ یہ نشان بھی مریخ سے وابستہ ہے جو کہ مرد یا مذکر کی علامت ہے۔
دوربین کی ایجاد کے بعد سے ہی مریخ کی سطح کے مختلف نقشے سامنے آتے رہے۔ سولہویں اور ستارہویں صدی عیسوی میں گیلیلیو سمیت کئی لوگوں نے دوربین کی مدد سے مریخ کا مطالعہ کیا۔ مریخ کا مدار کچھ اس طرح سے ہے کہ ہر 16 یا 17 سال بعد مریخ، زمین سے اپنے قریب ترین مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ 19ویں صدی میں ایک اطالوی ماہر فلکیاتجیووانی سکیاپریلی نے دوربین کے ذریعے مریخ کا مطالعہ کیا تو اسے مریخ کی سطح پر دریاؤں یا نہروں کی طرز کے نشانات نظر آئے۔ اس نے ان “نہروں” کو زمین پہ موجود دریاؤں کے نام دیئے۔ بعد میں سکیاپریلی کی یہ نہریں نظر کا دھوکہ قرار دے دی گئیں۔ تاہم 19ویں صدی کے آخر تک یہ نظریہ مقبول عام تھا کہ مریخ پہ نہ صرف پانی اور نباتات موجود ہیں بلکہ انسانی تہذیب کی طرح وہاں ایلین تہذیب بھی موجود ہے۔ اس طرح کے نظریات کو اس دور میں چھپنے والے ناولوں اور کہانیوں نے بھی تقویت دی جن میں ایلین اپنے دم توڑتے بنجر سیارے سے خوراک اور دیگر وسائل کی تلاش میں زمین پر حملہ آور ہوتے دکھائے گئے۔ ایچ جی ویلز کی “وار آف دی ورلڈز” انہی میں سے ایک ہے۔