کارٹون کہانی
جب ہم چھوٹے تھے تو پی ٹی وی کا زمانہ ہوا کرتا تھا جس پہ سہہ پہر تین بجے نشریات کا اغاز کیا جاتا تھا اور قاری سید صداقت علی کے ’اقرا ‘ کے بعد کارٹون لگا کرتے تھے۔ ہماری واحد تفریح وہی کارٹون ہوا کرتے تھے۔ یا پھر صبح صبح سات بجے والے مختصر کارٹون ہوا کرتے تھے لیکن وہ ہم عام طور پر نہیں دیکھ پاتے تھے کیونکہ ہمارا اسکول ذرا دور تھا اور ہمیں سکول بس لینے آ جاتی تھی۔ “کیپٹن پلا نِٹ” (اس وقت Planet کو پلانِٹ ہی یاد کیا ہوا تھا)، وولٹران، ہِی میں اور کونین ہی ہمارے خوابوں کی دنیا میں بستے تھے۔ میرے پسندیدہ کیپٹن پلانٹ تھے۔ یہی تین چار کارٹون اور ان کی وہی تین چار اقساط بار بار دیکھ دیکھ کر یاد بھی ہو گئی تھیں۔ وقت نے انگڑائی لی اور چھتوں پہ لگے اَنٹینے بدلنے لگے۔ یو ایچ ایف اور وی ایچ ایف کا کوئی الٹ پھیر چلنے لگا جو کہ اس وقت بھی میری سمجھ سے باہر تھا اور اب بھی۔ این ٹی ایم، شالیمار نیٹ ورک وغیرہ تشریف لانے لگے اور پھر بعد میں پی ٹی وی ورلڈ آنے لگا۔ اس وقت تک کارٹونوں نے واحد اردو سیریز ’ٹریژر آئیلینڈ‘ تک ترقی کر لی تھی۔ جس کو دکھا دکھا کر وہ بھی بچوں کو زبانی یاد کروا دی گئی تھی۔ ہمارے ہمسائے میں جو گھر تھا انہوں نے اس زمانے میں ڈش اینٹینا لگوایا ہوا تھا اور وہاں سونی ٹی وی اور زی ٹی وی آیا کرتے تھے۔ سونی پر کارٹونوں کا خصوصی انتظام تھا اور وہ ہندی (یعنی اردو میں!)میں لگتے تھے۔ ہمین بھی کبھی کبھی موقع مل جایا کرتا تھا دیکھنے کا۔ وہاں ڈزنی کے کارٹونوں سے شناسائی ہوئی۔ الہ دین، لٹل مرمیڈ، گوفی اور دیگر سے تعارف ہوا۔ یہ بھی اچھے لگنے لگے۔ اردو میں کارٹونوں کا اپنا مزہ تھا۔ مجھے گھوسٹ بسٹرز بہت پسند تھے۔ لیجئے جناب! اچانک ہی کیبل کا زمانہ آگیا۔ ٹانواں ٹانواں کیبل لگنے لگی، میرا بھائی کبھی کبھی چھت سے گزرتی کیبل پر ’کنڈی‘ لگا کر مستفید کر دیا کرتا تھا۔ پھر محلے کے گھروں میں کیبل لگنا شروع ہوئی تو ہمارے ہاں بھی آ گئی۔ اس زمانے میں میں کالج میں تھا شاید، لہٰذا دیکھنے کا شوق ختم ہو چکا تھا۔ طویل عرصہ ان کارٹونوں کی دنیا سے دور ہی گزرا۔ بھائیوں کی شادیاں ہوئیں اور پھر بھتیجوں کی آمد ہوئی۔ بس پھر کیا تھا، ایک ایسا دور شروع ہوا جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔ ہمارے گھر میں ایک ٹی وی جو کہ بھائی کے کمرے میں ہے اس پر صرف ایک ہی چینل لگتا تھا اور وہ تھا کارٹون نیٹ ورک۔ وہاں بیٹھے ہر شخص کو، بلا تخصیص جنس و عمر کارٹون ہی دیکھنے پڑتے ہیں۔ میں جب بھی بیٹھ جاتا تو پھر سب کے سونے کے بعد ہی اٹھتا۔ مجھے پھر سے کارٹونوں کی دنیا مل گئی تھی اور اس دفعہ یہ دنیا چار قسطوں پہ مشتمل نہیں تھی بلکہ ہزاروں کی تعداد میں کارٹون موجود تھے۔ ایک سے ایک نرالا، ایک سے ایک رنگین۔ ایسے کارٹون بھی تھے جو صرف شرارتی تھے، ایسے بھی تھے جو صرف پڑھاکو تھے۔ زنانہ کارٹون بھی وافر تعداد میں موجود تھے۔
پہلے بچے جو کارٹون بھی ملتا تھا اس کو پسند کر لیتے تھے۔ انتخاب آسان تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں رہا، بچے ہزاروں میں سے کسی ایک دو کو ہی پسند کرتے یں، نت نئے کارٹون چینلز کی بدولت بچے بھی بالکل بڑوں کی طرح ایک سے دوسرے پہ منتقل ہوتے ہیں۔ تھوڑا اسا دیکھا، اچھا لگا تو ٹھیک ورنہ بدل ڈالو!
بھلا ہو ہمارے پڑوسی ملک کا اب تو ہندی یعنی اردو میں بھی کئی کارٹون چینل ہیں۔ وقت کی ضرورت تھی، انہوں نے اپنا لی اور چونکہ یہاں بھی وقت کی ضرورت تھی لہٰذا ہم نے چرُا لی( یا ادھار لے لی)۔ بچے ان کارٹونوں کی زبان بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔ میرا ایک بھتیجا کثرتِ کارٹون بینی کے باعث خود بھی ایک کارٹون بن گیا ہے۔ بڑے ایکشن مارتا ہے، بڑے ڈائلاگ رٹتا ہے۔ اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی، اسے یہ بھی پتا ہے کہ ہم اس وقت 21ویں صدی میں ہیں اور جو ڈوریمان روبوٹ ہے وہ 22ویں صدی سے آیا ہے۔ اسے یہ بھی پتا ہے کہ یہ کارٹون ہیں اور حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ یہی خواہش رکھتا ہے کہ 22ویں صدی میں ایسا ہو جائے!
اب چونکہ اینی میٹڈ فلموں کا زمانہ ہے اور میں اینی میٹڈ فلمیں بہت شوق سے دیکھتا ہوں، اور میرے گھر میں سبھی اینی میٹڈ فلموں کا تھوڑا بہت ششوق رکھتے ہیں ،اس کی وجہ میرے بھتیجوں کی زبر دستی کی کارٹون نشریات ہے جو گھر میں چلتی رہتی ہے۔ اسی لئے فلمستان پر بھی ایک اینی میٹڈ فلم “ٹوائے سٹوری 3” پر تجزیہ لکھا ہے۔ اس کے پہلے دونوں پارٹ میں اپنے بھتیجوں کے ساتھ پچھلے ہفتے ہی دیکھ چکا ہوں۔ تیسرا پارٹ بھی ڈاؤنلوڈ کیا اور نا چاہتے ہوئے بھی کیم پرنٹ میں دیکھ لیا۔ :(۔
تجزیہ پڑھنے کیلئے فلمستان پر جائیں۔