منزل
دنیا کی اس بھیڑ میں ملنے والا ہر شخص ایک چلتی پھرتی داستان ہوتا ہے۔ بندہ نکلتا مغرب کیلئے ہے اور قدرت اسے مشرق میں پہنچا دیتی ہے۔ بعض اوقات یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں جانا ہے اور کونسا راستہ صحیح ہے۔ لوگ ملکوں ملکوں کی خاک چھان کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں اور پھر تھک ہار کر اسی کو اپنی منزل قرار دے کر ٹھہر جاتے ہیں۔ انسان اپنے آپ کو تسلیاں ہی دیتا رہ جاتا ہے کہ ہاں، یہی تو میری منزل تھی!
شام کے ڈھلتے سورج کی پھیکی سی روشنی میں ماں کے آنسوؤں اور باپ کے پریشان چہرے سے نظر بچانے کیلئے کبھی اپنا سامان چیک کرتے ہیں، تو کبھی چھوٹے بہن بھائیوں کو نصیحتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ روز بات کروں گا تیرے سے ٹیلیفون پہ، پڑھائی ٹھیک سے کرنی ہے، رو کیوں رہی ہے، تیرے لئے کھلونے بھیجوں گا ناں۔۔۔۔۔۔ اگر کبھی کوئی ٹائم ٹریول کر کے واپس اس لمحے میں جا کر اپنی آوازیں سنے تو یقین نہ کرے کہ یہ سب کچھ کہا تھا میں نے، یہ سب کچھ چھوڑا تھا میں نے، اور کیا پانے کیلئے۔۔۔!۔
گھر کی دہلیز پار کرتے ہی اٹکے ہوئے آنسو بھی دہلیز پار کر جاتے ہیں۔ لیکن آنکھیں صاف کرتے ہوئے چند یاروں دوستوں کے ساتھ ایک دفعہ تو دماغ سے ہر نقش صاف کرکے صرف اور صرف راستے کا نقشہ تازہ کرتے ہیں۔ اور باقی کی ساری زندگی انہی تصویروں اور نقوش کو سوچ سوچ کر، کھرچ کھرچ کر اپنا اندر لہولہان کرتے رہتے ہیں۔