سوال کیجئے!۔
جب میں چھوٹا تھا تو ٹی وی پہ نیلام گھر لگا کرتا تھا، سب گھر والے بیٹھ کر دیکھا کرتے تھے۔ طارق عزیز
صاحب مہمانوں سے مختلف سوالات کیا کرتے تھے اور انعامات دیا کرتےتھے۔ ہال مہمانوں سے بھرا ہوتا تھا اور سوالات ہر طرح کے ہوتے تھے۔ مذہبی بھی، سائنسی بھی، تاریخی بھی، جغرافیائی بھی اور ادبی بھی، گھر میں موجود ہر شخص کیلئے کچھ نہ کچھ ہوتا تھا ان سوالات میں۔ مجھے ہمیشہ ہی سے اس طرح کے پراگرام پسند تھے جن میں سوال ہوں، ان کے جواب دئے جائیں اور اگر دوبارہ وہ سوال کبھی دہرایا جائے تو ذہن پہ زور دیا جائے کہ کیا جواب بتایا تھا پچھلے پروگرام میں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم بہن بھائی اور کزن وغیرہ مل کے اپنا ایک نیلام گھر بھی کھیلا کرتے تھے۔ ایک کزن جنہیں میزبانی کا شوق ہو، وہ ہاتھ میں ہیئر برش کو مائک کے طور پہ پکڑے کھڑی ہیں۔ کاغذ کی پرچیوں پہ ایک کوئز کی کتاب سے، جو کہ شاید اب بھی گھر میں کسی کونے میں پڑی ہو، سوالات لکھے ہوئے ہیں۔ باقی سب بچے اور بڑے بھی سامنے کرسیوں یا چارپائیوں پہ بیٹھے ہیں۔ سوال پوچھے جا رہے ہیں، جواب دیئے جا رہے ہیں۔ انعام میں کبھی کبھار ٹافیاں یا پھر سوکھی تالیاں ہی بج رہی ہیں۔ نوویں اور دسویں جماعت کے کزن یا بہن بھائی جنہیں شعر و شاعری سے لگاؤ ہو، ان کے درمیان بیت بازی کا مقابلہ ہوتا تھا۔ طارق عزیز شو کے بیت بازی کے مقابلے میں کبھی نہیں بھول سکتا، جس خوبصورت انداز میں ٹیمیں تیاری کر کے آتی تھیں اور اکثر مقابلے لڑکیوں کی ٹیم جیت جایا کرتی تھی، لیکن سب مقابلے کو انجوائے کرتے تھے۔ [مکمل تحریر پڑھیں]