مجھے علامہ صاحب سے ایک سوال کرنا ہے۔
جی جی کیجئے، وہ سن رہے ہیں۔
علامہ صاحب، جیسا کہ آپکو پتا ہوگا کہ دو دن پہلے یورو کپ کا فائینل تھا اور ہسپانیہ اور اطالیہ کی ٹیمیں مد مقابل آئیں، ہسپانیہ نے اطالویوں کو’ آرام‘ سے ہرا دیا۔
فٹبال کے شایقین ظاہر ہے کسی نہ کسی ٹیم کو سپورٹ کر رہے تھے تو کیا ہم اپنی کئی سو سالہ پرانی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، ان ہسپانویوں کی جیت پہ خوشی کا اظہار کر سکتے ہیں جنہوں نے استرداد کے نام پہ لاکھوں مسلمانوں کو نکال باہر کیا تھا اور ہزاروں کو مذہب بدلنے پہ مجبور کیا تھا۔۔۔۔؟
میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر اوپر والے سوال کا جواب نہیں ہے تو کیا ہم اطالویوں کی شکست اور غیر مسلموں کی آپسی ’لڑائی ‘ پہ تو خوشی کا اظہار کر سکتے ہیں ناں؟؟
فیفا ورلڈ کپ میں بابا پال سائیں کی ’آٹھوں خانے چت‘ کرنے والی کامیاب پیشن گوئیوں کے بعد جہاں انہیں مختلف ’دہشت گرد‘ طبقوں کی طرف سے بھون کے کھانے اور زندہ سوشی بنا دینے کی دھمکیاں دی گئی ہیں ، وہیں پاکستان میں ان کی مقبولیت میں اضافے کے آثار بھی نظر آتے ہیں۔ پاکستان چونکہ ایک پسماندہ اور غریب ملک ہے، اس لئے یہاں ابھی تک مستقبل کا حال جاننے کے پرانے طریقے ہی رائج ہیں۔ جن میں سب سے مشہور طوطے کے ذریعے فال نکالنا ہے۔ طوطا پاکستانی معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ زبانی و لسانی اعتبار سے بھی لازم و ملزوم ہے۔ طوطا چشمی کے اس دور میں جہاں طوطی کی گونجتی آواز کو نقار خانے میں کوئی نہیں سنتا وہاں بابا پال سائیں جرمنی والے کے اس نئے انداز کو سراہا گیا ہے جس میں کامیاب فریق کے گرد اپنے قانون کی طرح لمبے ہاتھوں یا پیروں کو لپیٹ کر گرمجوشی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
جرمنی کی ہسپانیہ کے ہاتھوں سیمی فائینل کی شکست اور پھر ہسپانیہ کی فائینل میں کامیابی کے بعد تو آکٹوپس (ہشت پا) بابا پال سائیں کے خلاف بڑھتے ہوئے شدت پسندوں کی وجہ سے اسپین کے وزیر اعظم نے بال سائیں کو اسپین میں پناہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن ابھی تک بابا پال سائیں کے مرشد نے آکٹوپس کو بھیجنے یا نہ بھیجنے کا فیصلہ نہیں سنایا۔ میری حکومتِ پاکستان سے اپیل ہے کہ اس نادر دیو مالائی مخلوق کو پاکستان میں بلا لیا جائے تا کہ پاکستان اور پاکستان کے لوگوں کی قسمت جانی جا سکے۔ اور شادیوں، طلاقوں، محبوبوں اور دشمنوں کو قابو کرنے کے جتنے بھی پینڈنگPending مقدمے ہیں، ان کا خاطر خواہ حل نکالا جا سکے۔ویسے بھی اس سے پہلے تک پاکستان میں یہ نایاب جاندار کبھی دیکھنے میں نہیں آیا، اور فٹ پاتھوں پر تو خاص طور پہ اس کا کوئی ہم جنس نہیں پایا جاتا۔ لیکن اب پاکستان میں بھی اس ہشت پائی نسل کو آگے بڑھایا جانا چاہیئے اور اس سے شادیوں، طلاقوں، کاروبار میں کامیابی و ناکامیابیوں سمیت ہر طرح کے کام لئے جانے چاہئیں۔ محبوب کو پکڑ بلکہ جکڑ کر بنفسِ نفیس قدموں میں گرانے میں تو خاص ٹریننگ بھی دیئے جانے کے روشن امکانات پائے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ویسے بھی ’پائی‘ سے متعلقہ الفاظ کو پسند کیا جاتا ہے مثلاً چار پائی، ہاتھا پائی اور پائی پائی۔ لہٰذا امید کی جاسکتی ہے کہ اردو زبان میں ہشت پا کو بھی خوشدلی سے شامل کیا جائے گا۔ اور اس سے مل ملا کر ہشت پائی الفاظ کو بھی جگہ دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے ہشت پاؤوں کی نسل بھی سامنے آئے گی۔ جن میں بنگالی ہشت پا، ہشت پا کالیا اور ڈبل شاہی ہشت پا زیادہ نمایاں ہوں گے۔ایم اے، بی اے، سی اے، کی اے! والے ہشت پا تو عام ملنے لگیں گے۔ سنا ہے کہ آکٹوپس کی عمر تین سال ہی ہوتی ہے اور یہ بابا پال سائیں اپنی پرائم ایج گزار چکے ہیں اور تقریباً ڈھائی سال کے ہیں۔ اس ضعیف العمری میں تو ان کیلئے پاکستان ایک جنت سے کم نہیں کہ یہاں زندہ آکٹوپس لاکھ تو مرا آکٹوپس سوا لاکھ کے مصداق بابا پال سائیں کا مزار بنانے کی بھی گنجائش ہے۔ نو گزی قبریں تو پاکستان میں پائی ہی جاتی ہیں ، اب ایک آٹھ گزی بھی ہو جائے۔ جہاں ملنگ آٹھ پہرہ روزہ رکھیں گے اور آٹھ آنے کا چڑھاوا دیا جائے گا۔۔۔!!
پال کی جتنی آمدنی جرمنی میں ہوئی ہے اس سے کہیں زیادہ پاکستان میں متوقع ہے، یہاں تو اس کی آٹھوں ٹانگیں گھی میں ہوں گی۔۔!!