اے پتر ہٹان تے نئیں وکدے۔۔۔ جب بھی یہ نغمہ کانوں میں پڑا ہمیشہ خون میں ایک ابال محسوس کیا۔ جب پنجابی سمجھ آنا شروع ہوئی تو اس کے بول سن کے آنکھیں نم اور دھڑکنیں تیز بھی ہوئیں۔ سکول میں چھے ستمبر کی تقریبات میں حصہ بھی لیا، تقریریں بھی کیں، ٹیبلو بھی پیش کئے۔ آرمی پبلک سکول ہونے کے ناطے اکثر ستمبر کے مہینے میں عسکری نمائش بھی لگتی تھی، جس میں بچے ٹینک وغیرہ میں بیٹھ کر فوجی جوانوں کے ساتھ تصویریںبھی بنواتے تھے۔ میں نے بھی یہ شوق پورے کئے۔ پی ٹی وی پہ لگنے والی ٹیلی فلمیں بھی دیکھیں، ضلع گجرات اور گردونواح کے حصے میں نشان حیدر بھی ہیں اس لئے ہمیشہ اس طرح کی ٹیلی فلمیں دیکھ کر سینہ بھی چوڑا ہوتا ہوا محسوس ہوا۔[مکمل تحریر پڑھیں]
جب میں چھوٹا تھا تو ٹی وی پہ نیلام گھر لگا کرتا تھا، سب گھر والے بیٹھ کر دیکھا کرتے تھے۔ طارق عزیز
صاحب مہمانوں سے مختلف سوالات کیا کرتے تھے اور انعامات دیا کرتےتھے۔ ہال مہمانوں سے بھرا ہوتا تھا اور سوالات ہر طرح کے ہوتے تھے۔ مذہبی بھی، سائنسی بھی، تاریخی بھی، جغرافیائی بھی اور ادبی بھی، گھر میں موجود ہر شخص کیلئے کچھ نہ کچھ ہوتا تھا ان سوالات میں۔ مجھے ہمیشہ ہی سے اس طرح کے پراگرام پسند تھے جن میں سوال ہوں، ان کے جواب دئے جائیں اور اگر دوبارہ وہ سوال کبھی دہرایا جائے تو ذہن پہ زور دیا جائے کہ کیا جواب بتایا تھا پچھلے پروگرام میں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم بہن بھائی اور کزن وغیرہ مل کے اپنا ایک نیلام گھر بھی کھیلا کرتے تھے۔ ایک کزن جنہیں میزبانی کا شوق ہو، وہ ہاتھ میں ہیئر برش کو مائک کے طور پہ پکڑے کھڑی ہیں۔ کاغذ کی پرچیوں پہ ایک کوئز کی کتاب سے، جو کہ شاید اب بھی گھر میں کسی کونے میں پڑی ہو، سوالات لکھے ہوئے ہیں۔ باقی سب بچے اور بڑے بھی سامنے کرسیوں یا چارپائیوں پہ بیٹھے ہیں۔ سوال پوچھے جا رہے ہیں، جواب دیئے جا رہے ہیں۔ انعام میں کبھی کبھار ٹافیاں یا پھر سوکھی تالیاں ہی بج رہی ہیں۔ نوویں اور دسویں جماعت کے کزن یا بہن بھائی جنہیں شعر و شاعری سے لگاؤ ہو، ان کے درمیان بیت بازی کا مقابلہ ہوتا تھا۔ طارق عزیز شو کے بیت بازی کے مقابلے میں کبھی نہیں بھول سکتا، جس خوبصورت انداز میں ٹیمیں تیاری کر کے آتی تھیں اور اکثر مقابلے لڑکیوں کی ٹیم جیت جایا کرتی تھی، لیکن سب مقابلے کو انجوائے کرتے تھے۔ [مکمل تحریر پڑھیں]
پچیس سال پہلے آج ہی کے دن، مشرقی جرمنی کے شہر لائپزگ میں شہر کے مرکز میں واقع نکولائی گرجا گھر کے سامنے ایک احتجاج کیا گیا، جسے ’منڈے ڈیمونسٹریشن‘ (Monday Demonstration or Montagsdemonstration) یعنی ”احتجاجِ سوموار“ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ پہلا احتجاج تھا جس نے بعد کے آنے والے دنوں میں مشرقی اور مغربی جرمنی کا اتحاد یقینی بنایا۔ اس پر امن احتجاج کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مشرقی جرمن شہریوں کو حقِ رائے دہی دیا جائے اور ملک میں جمہوری حکومت کا قیام کیا جائے۔ روسی اثر کے تحت مشرقی جرمنی میں اسوقت سوشلسٹ حکومت قائم تھی اور لوگوں کو ووٹ کے حق کے علاوہ بیرون ملک سفر کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔ یہ احتجاج 4 ستمبر 1989سے شروع ہوئے اور پھر ہر سوموار اسی طرح شہر کے مرکز میں 1990 تک ہوتے چلے گئے۔ ہر احتجاج میں پہلے سے زیادہ تعداد نے شرکت کی اور ایک مہینے کے اندر اندر گرجا کے اندر اکٹھے ہونے والے چند سو لوگ ستر ہزار کے مجمع میں تبدیل ہوگئے اور حق رائے دہی کیلئے نعرہ بلند کرتے رہے، ’ہم افراد ہیں، ہم لوگ ہیں‘ (we are the people. Ger: Wir sind das Volk)۔ یہ نعرہ جمہوریت کی اساس ہے، وہ حکومت جسے جمہور چنے، وہی جمہوری حکومت ہوتی ہے۔ اس وقت کی جرمن پولیس اور فوج گو کہ احتجاج کی جگہ موجود تھی، لیکن مشرقی برلن کی طرف سے واضح احکامات نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی مداخلت یا رکاوٹ سے گریز کرتی رہی اور پر امن احتجاج پر امن ہی رہا۔ دو مزید ہفتے اسی طرح گزرے اور 23 اکتوبر کو شہر کی 5 لاکھ کی کل آبادی میں سے ساڑھے تین لاکھ سڑکوں پہ تھے۔ مغربی جرمنی کے میڈیا نے ان واقعات کو نشر کیا اور لوگوں نے مشرقی جرمنی کے دوسرے شہروں میں بھی اسی طرح سوموار کے دن احتجاجوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ عوامی پریشر اسقدر بڑھ گیا کہ 9 نومبر 1989 کو دیوارِ برلن گرا دی گئی۔ جس سے مشرقی جرمنی میں سوویت سوشلسٹ حکومت کا تقریبا خاتمہ ہوا۔ یہ احتجاجی مظاہرے بالاخر 1990 میں ختم ہوئے جب پہلی بار مشرقی جرمنی میں کثیر جماعتی انتخابات کروائے گئے اور لوگوں نے اپنے منتخب نمائندوں کو فولکس کامر یعنی پارلیمان تک پہنچایا۔ جہاں آنے والے چند ہی مہینوں میں لوگوں کی منشا اور مرضی کا خیال کرتے ہوئے دونوں جرمن ممالک کو دوبارہ متحد کرنےکا اعلان کر دیا گیا۔ اور اس طرح ایک ”نیا جرمنی“ معرض وجود میں آیا۔
ہماری جرمن کی استانی کہا کرتی تھیں کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم دوبارہ اکٹھے ہو سکے، ورنہ دنیا میں آئے دن ایک ہی قوم بیٹھے بٹھائے دو میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اور اس طرح تقسیم ہو جاتی ہے کہ ایک نسل، ایک باپ دادا کی اولاد ہوتے ہوئے بھی ان کے درمیان اختلافات کی ایک ایسی دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے کہ اسے گرانا بعد والوں کیلئے نا ممکن ہو جاتا ہے۔ میرے ایک دوست نے کچھ ہی دن پہلے کہا تھا کہ ہم کسی سیاست یا سیاسی لوگوں یا عالمی برادری کے کہنے پہ اکٹھے نہیں ہوئے تھے، بلکہ یہ لوگوں کا فیصلہ تھا۔ جب لوگوں کو ان کے حقوق نہیں ملے اور وہ غربت سے اکیلے لڑنے کیلئے تنہا چھوڑ دیئے گئے، یہاں تک کہ ساتھ والے ملک میں جا کر روٹی کمانا بھی منع کر دیا گیا تو انہوں نے آواز اٹھائی اور اسوقت تک خاموش نہیں ہوئے جب تک سب نے سن نہ لی۔
میرے فیسبک پہ کوئی ساڑھے کو تین سو ”دوست“ ہیں۔ صبح سے شام تک میری ’وال‘ پہ ہزاروں کی تعداد میں مواد چپکایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ دانستہ نہیں چپکایا جاتا بلکہ ایک خود کار ڈھنڈورا سسٹم کے تحت دنیا میں موجود لاکھوں افراد کی پوسٹیں کروڑوں افراد تک پہنچا دی جاتی ہیں۔ گندے لطیفوں سے لے کر خلیل جبران کے فلسفے تک سب کچھ ایک ایک کر کے سامنے آتا رہتا ہے۔ پاس کر یا برداشت کر کے عمل کے تحت اس کو پراسیس کرنا ہوتا ہے اور لگاتار کرتے رہنا ہوتا ہے۔ جتنی کمپلیکس یہ دنیا ہے اس سے کئی گنا زیادہ مشکل اور عجیب اس دنیا کی ”سوشل لائف“ ہے۔ یہ جو لائک اور شیئر ہے ناں، اس نے ہمارے لئے معلومات کا مقصد اور ان کی اصل بدل کے رکھ دی ہے۔ کبھی کبھی میں حیران رہ جاتا ہوں جب میں اپنی وال دیکھتا ہوں کہ یہ ہو کیا رہا ہے یہاں؟ پاکستان میں گفتگو ہی ایسے شروع ہوتی ہے کہ: ”تجھے پتا چلا کامونکی میں تین سروں والا کالا ناگ پکڑا لوگوں نے۔۔۔فیس بک پہ ویڈیو دیکھی تھی میں نے۔“ کوئی کہتا ہے ” یار یہ فلاں کمپنی کا جوس نہ پیا کرو، اس میں ڈائی فلورو ٹرائی کاربو آکسی نائٹرو پرو پیو نک ایسڈ ہوتا ہے!!۔۔۔ میں نے کل ہی فیس بک پہ پڑھا تھا۔“ کوئی صاحب اسلامی معلومات کا خزانہ اس تندہی سے شیئر کرنے پہ لگے ہوئے ہیں کہ شاید خود پڑھنے کا بھی موقع نہیں ملتا۔ ایسے ایسے اقوالِ زریں ڈھونڈ کے لگاتے ہیں کہ بندہ کراس چیک ہی نہ کر سکے۔ کسی صاحب نے یہ بیڑا اٹھایا ہوا کہ دنیا بھر سے کٹی پھٹی، مسخ شدہ لاشوں کی تصاویر کے نیچے اپنی مرضی کی عبارت، مرضی کے بندے سے منسوب کرکے دھڑادھڑ لگائی جا رہے ہیں۔ بعض اوقات وہی پرانی لاش، نئے جھنڈے [مکمل تحریر پڑھیں]
مجھے اصلی والا رشک محسوس ہوتا ہے ان لوگوں پہ جب کو یہ معلوم ہو کہ وہ باڑھ کے کونسی طرف کھڑے ہیں! ہمیں (ہمیں= میں اور م، ق، س، ن، ع، ر، ت، ی، ہ، و، ج، ک وغیرہ) تو آج تک یہ ہی نہیں پتا چلا کہ یہ طالبان ہیں کیا؟ کسی نے کہا کہ طالبان کا لغوی مطلب ہے ”طلب کرنے والا“ یعنی یہ لوگ اسلام کی طلب رکھتے ہیں! کسی نے کہا کہ یہ لوگ افغانستان میں اقتدار کی طلب رکھتے ہیں۔ تاریخ بھگارنے والوں نے کہا کہ سوویت قبضے کے خلاف امریکی سپانسر شدہ افغان جہاد میں ان کو تخلیق کیا گیا۔ کسی نے تردید کی کہ نہیں یہ تو اس وقت سے موجود ہیں جب کابل میں خواتین شٹل کاک برقعے کی جگہ سکرٹ پہنتی تھیں اور قندھار اپنے ’اناروں‘ کی وجہ سے مشہور تھا۔ ایک ڈاکومینٹری میں بتایا گیا کہ طالبان پاکستان سے درآمد شدہ ہیں۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ جب یہ گروپ امریکہ کے ہاتھ سے نکل گیا تو دہشت گرد قرار پایا۔ نائن الیون سے پہلے مجھ سمیت کئی لوگوں نے طالبان کا نام بس باڑے سے اسمگل شدہ سامان لا کر بیچنے والوں سے ہی سنا تھا۔ اور جن کو اس کاروبار میں فائدہ ہوتا تھا ان کے مطابق طالبانی دور افغانستان تو کیا پوری دنیا کہ سنہرے ترین ادوار میں سے ایک تھا۔ قصہ گو کہتے تھے کہ وہاں ہر طرف راوی چین لکھتا تھا۔ ہر طرف اسلامی شریعت کا بول بالا تھا، جس کی واحد مثال تمام راویوں نے یہی قلم بند کی کہ وہاں ”شرعی سزائیں“ دی جاتی تھیں اور ہر مرد کی داڑھی ہوتی تھی۔ میں تب بھی اور اب بھی یہی سوچتا ہوں کہ کیا اسلامی شریعت کی خوبصورتی اور امتیاز کا اندازہ انہی باتوں سے لگایا جا سکتا ہے؟! یہاں میں واضح کر دوں کہ میں نائن الیون یعنی کہ میڈیا کی پراپیگنڈا جنگ سے پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ اس وقت واحد ذریعہ ورڈ آف ماؤتھ اور اسمگلر ہی تھے۔[مکمل تحریر پڑھیں]
آج ہم آپ کیلئے لے کر آئے ہیں ایک سدا بہار ڈش جو ہر موسم میں بے مثال اور بھرپور مزا دیتی ہے۔ جی ہاں، کانسپریسی پکوڑے۔ یوں تو مارکیٹ میں کئی طرح کے کانسپریسی پکوڑے بنے بنائے دستیاب ہوتے ہیں لیکن جو مزا تازہ اور ہاتھ کے ہاتھ بنے پکوڑوں کا ہے وہ کسی کا نہیں۔ کانسپریسی پکوڑوں کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ان کو بنانے کیلئے آپ کوئی بھی موسمی یا بے موسمی خبر استعمال کر سکتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں مزا برقرار رہتا ہے۔ ہاں، ایک بات ہے کہ کانسپریسی پکوڑے بنا تو سب سکتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کے بنائے ہوئے پکوڑوں میں جو مزا ہے وہ باقی تمام کو پھیکا بنا دیتا ہے۔
تو آئیے بناتے ہیں کانسپریسی پکوڑے۔ سب سے پہلے ہمیں جو چیز درکار ہوگی وہ ہے کوئی بھی خبر، موسمی ہو جائے تو بہت اعلیٰ ورنہ بے موسمی اور باسی خبر کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے پہلے اسے ذرا کچھ دیر کیلئے فیس بک ، ٹویٹر، یوٹیوب یا دیگر فورموں میں تھوڑی دیر کیلئے کھلا چھوڑ دیں۔ بس بارہ پندرہ لائک یا ری ٹویٹوں کے بعد آپ اس کو پکوڑوں کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔[مکمل تحریر پڑھیں]
یہ ایک ایئر پورٹ ہے۔ کس شہر کا؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، پاکستان کے تمام شہروں کے ایئر پورٹ ماحولیات کے اعتبار سے کم و بیش ایک سے ہی ہیں۔ قطار میں سامان چیک کرانے کیلئے لوگ بے زار کھڑے ہیں۔ کسٹم کا عملہ پتا نہیں کس جنم کا بدلہ یا پھر اپنا حصہ لے رہا ہے۔ ایک مونچھوں والے نئے دریافت شدہ انکل اپنے تازہ تازہ بھتیجے کو ساتھ لئے ساری قطار کو بائی پاس کرتے ہوئے ڈائرکٹ کسٹم والے کاؤنٹر پہ پہنچ جاتے ہیں۔ لوگ انکل کے گلے میں لٹکتے پاس کو اور اس لڑکے کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے رہ جاتے ہیں، جبکہ وہ ایک عالم بے نیازی میں کندھے [مکمل تحریر پڑھیں]