باربر شاپ
بازار کے کونے پہ ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ مسجد کا ایک دروازہ دوسری جانب جی ٹی روڈ کی طرف فٹ پاتھ کے ساتھ کھلتا ہے۔ گیٹ کے بالکل ساتھ دیوار پہ ایک آئینہ لٹک رہا ہے، سامنے ایک پرانی، بلکہ قدیم کرسی رکھی ہے۔ کرسی کی ایک ٹانگ کے نیچے اینٹ رکھ کے اسے بیٹھنے کے قابل بنایا گیا ہے۔ آئینے کے نیچے ایک لکڑی کے تختے کی شیلف سی بنا کر اس پہ حجامت بنانے کا سامان رکھا ہوا ہے۔ یہ ہے شہر کی سب سے پرانی نائی کی دکان۔ سڑک کے کنارے، درخت کے نیچے اور مسجد کے ساتھ بنی اس دکان کی دھندلی سی یادیں اب بھی ذہن میں محفوظ ہیں۔ فٹ پاتھ بننے سے پہلے سڑک کے کنارے پرانا اور گھنا درخت تھا، جس کے نیچے ٹوٹے ہوئے لکڑی کے ایک دو بینچ رکھ کر اپنی حجامت کا انتظار کرنے والوں کیلئے بیٹھنے کے ساتھ ساتھ تازہ اخبار کا انتظام بھی ہوتا تھا۔ ان بنچوں پر ایک دو بابے مستقل ہی بیٹھے ہوتے تھے۔ جب بھی وہاں سے گزر ہوا، ان کو وہاں ہی بیٹھے دیکھا۔صبح سویرے بابا جی ہاتھ میں اخبار پکڑے ابھی بمشکل سرخی ہی پڑھتے تھے اور اسلم نائی حاجی صاحب کی شیو بناتے ہوئے اصل خبر اس کے بقیہ حصے سمیت با آواز بلند سنا دیا کرتا تھا۔ پھر ہر خبر پہ سیر حاصل تبصرہ، مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل، موجودہ حکومت کی نا اہلیاں اور آئیندہ امیدواروں کی تعریف سب کچھ ایک ہی پیکج میں شامل ہوتا تھا۔[مکمل تحریر پڑھیں]