سمندر پار اردو بلاگران کی پہلی کانفرنس 25 اپریل تا 27 اپریل، اٹلی کے شہرِ رومان وینس اور اسکے گرد و نواح میں منعقد کی گئی۔ کانفرنس کی میزبانی جناب محترم عالی قدر، تقریبا پروفیسر، ڈاکٹر راجہ افتخار احمد خان صاحب نے نبھائی اور جس خوبی سے نبھائی، اس کے بارے میں کچھ بھی کہنا فضول ہے۔ کانفرنس کے مستقل شرکاء میں محترم مدظلہ، سانتا فامیلیا لی مولتانو کے چشم و چراغ جناب علی حسان صاحب، جو کہ دنیا کی اس طرف سے تشریف لائے تھے جہاں آلو کو کارتُول اور پاکستانیوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ راقم ناچیز بھی اس کانفرنس میں شریک رہا اور ان صاحبان کے علم و فضل سے فیضیاب ہوا۔ راجہ صاحب دی گریت نے مندوبین کو ایئرپورٹ سے وصولنے اور پانچ دن برداشت کرنے کے بعد واپس ایئرپورٹ پہ چھوڑنے تک، قدم قدم پہ جو اردو اور اردو بلاگ نگاری کی عظیم خدمت کی ہے، اس کی مثال تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ بابائے اردو کے بعد اگر کسی نے اتنی تندہی اور فراخی سے خدمت کی ہے تو وہ راجہ صاحب ہی ہیں۔ اس بنا پہ انہیں اردو بلاگروں کا چاچائے اردو کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ مستقل مندوبین کے علاوہ کانفرنس کی ویگن میں مختلف سٹیشنوں سے سواریاں اترتی چڑھتی رہی ہیں، جن میں راجہ صاحب کے رفقاء کار اور دیگر مقامی پاکستانی بھی شامل ہیں۔ ان صاحبان نے اردو اور اردو بلاگ نگاری کے موضوعات پہ ہوتی گفتگو کو جس برداشت اور خاموشی سے سنا، اس کی داد نہ دینا بھی زیادتی ہوگی۔[مکمل تحریر پڑھیں]
پتا نہیں کیا سوچ کر میں نے ہاں کی تھی آئس سکیٹنگ کیلئے۔ جیسے ہی ”بلیڈوں والے بوٹ“ پہن کر کھڑا ہوا، کچھ نہیں ہوا! یہ چینجنگ روم (changing room) تھا اور یہاں مخصوص ربڑ کا فرش بچھا ہوا تھا جس پہ کھڑا ہونا انتہائی اسان تھا۔ بھاری قدم اٹھاتا میں دروازے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھول کے چوکھٹ پکڑ کر باہر کا جائزہ لیا۔ دو تین سیڑھیاں اتر کر آگے برف شروع ہو جاتی ہے اور پھر چند قدم کے فاصلے پہ ایک حصار بنا کر سکیٹنگ کیلئے رِنک (rink) تیار کیا گیا ہے۔ پہلا قدم باہر رکھا اور ۔۔۔۔ بڑی مشکل سے سنبھلا کیونکہ سیڑھیوں پہ ربڑ نہیں تھی۔ سٹیل کی ٹھنڈی یخ ریلنگ کو مضبوطی سے پکڑ کر اگلا قدم اٹھایا۔ ریلنگ کے سہارے میں ایسے نیچے اتر رہا تھا کہ گھنٹے بالکل مڑے ہوئے تھے اور جسم تقریبا زمین کو چھو رہا تھا، جیسے کوئی اپاہج شخص پہلی بار وہیل چیئر سے اٹھ کر سیڑھیاں اترنے کی کوشش کر رہا ہو۔ بچپن میں نصاب کی کتاب میں ایک کہانی پڑھی تھی جس میں زرافے کے پانی پینے کا منظر بیان کیا گیا تھا، میں ہمیشہ اس کہانی کو پڑھ کر اس منظر کو لاشعور میں تخلیق کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک تو اس میں ایسے ایسے مشکل الفاظ تھے اور دوسرے زرافے کے پانی پینے کا انداز پتا نہیں کیسا ہوتا ہے کہ کبھی بھی میں اس کو چشمِ تصور سے ’ریئلائز‘ نہ کر سکا تھا۔ لیکن آج مجھے احساس ہوا کہ شاید وہ منظر کچھ اس قسم کا ہی نظر آتا ہو گا۔ کیونکہ جس انداز میں میرا جسم مڑا ہوا تھا اور میں پھسلنے سے بچنے کی کوشش میں سہارا تھامے ہوئے تھا۔ سیڑھیاں اتر کر اب ریلنگ کو چھوڑ کر آگے رِنک تک جانا تھا، بمشکل تین قدم کا فاصلہ تھا لیکن تین کوس لگ رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست کو دیکھا جو کہ اب تک رِنک کے قریب پہنچ چکا تھا اور اس کی دیوار کا سہارے لے کر آگے بڑھ رہا تھا۔ میں اب بھی ریلنگ کس کے پکڑے ہوئے تھا اور پاؤں احتیاط سے آگے رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب یا تو میں ریلنگ پکڑ کر کھڑا رہتا یا اسے چھوڑ کر آگے بڑھ سکتا تھا، لیکن میں نے ریلنگ کو تو چھوڑنا نہیں تھا، اور قدم بھی آگے رکھنے تھے۔ اب اس کوشش میں میں ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے پاؤں کوئی اور چلا رہا ہے اور ہاتھ کسی اور نے پکڑے ہوئے ہیں!۔ میرے دوست نے مڑ کر دیکھا اور ہنس کر کہا کہ یار ریلنگ کو تو چھوڑ دو۔ میں نے کہا یعنی کہ گِر جاؤں؟ وہ بیچارہ واپس آیا اور میری طرف ہاتھ بڑھا کے بولا کہ وہاں سے ہاتھ چھوڑ کر مجھے پکڑ کر آگے چلو لیکن دھیان سے کیونکہ میں بھی زیادہ مہارت نہیں رکھتا اور وزن نہیں سنبھال سکوں گا۔ وہ دو قدم میں ایسے چلا جیسے پُل صراط پہ چل رہا ہوں۔ تیسرا قدم رکھتے ہی میں نے فورا رِنک کی دیوار کا سہارا لیا اور فاتحانہ انداز میں وہیں کھڑا ہو گیا۔ مڑ کر دیکھا تو برف میں میرے قدموں کے نشان ایسے تھے جیسے کوئی لکڑی کی ٹانگیں گھسیٹ کر یہاں تک آیا ہے۔ دیوار کا سہارا لے کر میں اپنے دوست کے پیچھے پیچھے پاؤں گھسیٹتا رِنک کے داخلی راستے تک آیا۔ اب آگے نرم برف کی جگہ سخت اور پکی برف تھی جسے آئس کہتے ہیں۔ یعنی آئس سکیٹنگ (برف قدمی؟) تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی تھی![مکمل تحریر پڑھیں]
یہ ایک ایئر پورٹ ہے۔ کس شہر کا؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، پاکستان کے تمام شہروں کے ایئر پورٹ ماحولیات کے اعتبار سے کم و بیش ایک سے ہی ہیں۔ قطار میں سامان چیک کرانے کیلئے لوگ بے زار کھڑے ہیں۔ کسٹم کا عملہ پتا نہیں کس جنم کا بدلہ یا پھر اپنا حصہ لے رہا ہے۔ ایک مونچھوں والے نئے دریافت شدہ انکل اپنے تازہ تازہ بھتیجے کو ساتھ لئے ساری قطار کو بائی پاس کرتے ہوئے ڈائرکٹ کسٹم والے کاؤنٹر پہ پہنچ جاتے ہیں۔ لوگ انکل کے گلے میں لٹکتے پاس کو اور اس لڑکے کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے رہ جاتے ہیں، جبکہ وہ ایک عالم بے نیازی میں کندھے [مکمل تحریر پڑھیں]
رات کے 8 کا وقت طے تھا لیکن میں ذرا تاخیر سے نکلا اور تقریبا آٹھ بیس پہ طے شدہ کیفے میں داخل ہوا۔ وقت اتنا نہیں ہوا تھا لیکن دسمبر شروع ہو چکا تھا اور 5 بجتے ہی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے 11 بج رہے ہیں۔ یہ کیفے ساتھ والی گلی میں ہی تھا لیکن اس سے پہلے کبھی ادھر جانے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ کیفے میں داخل ہوتے ہی میں نے ایک طائرانہ سی نگاہ ڈالی۔ دائیں طرف ایک بڑی سے میز کے گرد پانچ چھے جرمن بیٹھے تھے۔ تقریبا سب ہی ادھیڑ عمر اور بڑھاپے کے درمیان تھے۔ جس شہر میں میں رہتا ہوں، اس کی زیادہ آبادی اسی رینج میں ہے۔ ذرا آگے ایک چھوٹی میز کے گرد دو لڑکے اور ایک لڑکی بیٹھے تھے۔ میری اجتماعی ہیلو پہ سب نے ایک ساتھ میری طرف دیکھا اور ان تینوں کے علاوہ باقی سب اپنی باتوں میں پھر سے مشغول ہو گئے۔[مکمل تحریر پڑھیں]
وائمار یا ویمر (Weimar) کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک دم ایک بجلی سی لپکتی ہے اور دماغ کی بتی جل اٹھتی ہے لیکن دماغ کا کمرہ خالی پا کر پھر سے بجھ جاتی ہے۔ یہ تو تھی میرے دماغ کی کہانی لیکن تاریخ سے واقفیت رکھنے والوں کیلئے یہ نام نیا نہیں ہے۔ وائمار کا نام جرمن تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ 1918 میں پہلی جنگِ عظیم کے بعد جرمنی میں بادشاہت کے خاتمے کے ساتھ ہی جمہوری دور کی شروعات ہوئی اور وائمار کے مقام پر پہلا جمہوری دستور قلمبند کیا گیا۔ اسی مناسبت سے اس دور کو وائمار ریپبلک یا جمہوریہ وائمار کا نام دیا جاتا ہے۔ گو کہ یہ جمہوری دور زیادہ طویل نہیں تھا لیکن اس دوران جرمنی میں نمایاں معاشرتی، معاشی اور ثقافتی اصلاحات ہوئیں، جو کہ آنے والے دنوں میں بھی برقرار رہیں۔ انتظامی ڈھانچے، سیاست اور ٹیکس نظام سے لیکر منظم ریلوے اور یکساں کرنسی کا اجراء بھی اسی دور کے اہم سنگِ میل ہیں۔ معاشرتی ترقی کے ساتھ ساتھ سائینس اور ٹیکنالوجی میں بھی یہ دور جرمن قوم کیلئے مثالی حیثیت رکھتا ہے۔
اس دور کا اختتام 1930ء میں ہٹلر کی نازی پارٹی کے بڑھتے ہوئے اثرو وسوخ کے باعث شروع ہوا اور آخر کار 1933ء میں باقاعدہ طور پہ ہٹلر کے تھرڈ رائش کا آغاز ہوا۔[مکمل تحریر پڑھیں]