مجھے تو کچھ کہتے ہوئے، کچھ لکھتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے۔
ابھی دو تین دن پہلے ہاسٹل میں ٹی وی پہ یہ خبر دیکھی کہ سیالکوٹ میں مشتعل افراد نے دو ڈاکوؤں کو پکڑ کر پولیس کی موجودگی میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔۔۔۔۔۔۔ اچھا کیا، یہی ہونا چاہیئے ان کے ساتھ۔۔۔۔۔ یہ وہ الفاظ تھے جو میرے ایک فاضل ساتھی نے کھانا کھاتے ہوئے کہے تھے۔ میں بھی چونکہ پاکستانی ہوں اس لئے میں نے ہجوم کے باقی افراد کی طرح خاموشی پہ ہی اکتفا کیا تھا۔
سیلاب کی خبریں۔۔۔۔ ہزاروں لوگ مر گئے، بہہ گئے۔۔۔۔ کروڑوں بے گھر ہو گئے، مزید پتا نہیں کتنے ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا ہوا، یہی ہونا چاہئے ان کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہیں نہ کہیں سے تو یہ آواز بھی آئی ہی ہو گی!
وہ تو ہمیں پتا چل گیا کہ او ہو! چچ چچ، وہ تو بے گناہ تھے۔۔۔۔ ایویں ہی ڈنڈے برسا برسا کر مار دیا انہیں۔
ورنہ تو سارے رمضان کی برکتوں اور رحمتوں میں جھوم جھوم رہے تھے۔ بھئی جب قانون کے رکھوالے وہاں بر وقت کاروائی پہ پہنچ گئے تھے اور آن سپاٹ جسٹس کے مطابق فیصلہ دے چکے تھے کہ وہ ڈاکو ہیں تو کسی کو کیا ضرورت ہے کہ وہ بولے بیچ میں۔۔۔ جب پتا چل جائے کہ کوئی مجرم ہے تو جج عدالت وکیل کیا کرنے، وہیں شور مچاؤ، مومنین کی ایک جماعت گواہ بناؤ، اور چوری کی سزا کیا کرنی، جو جس کے دل میں آئے سزا دے دو۔۔۔۔۔
یہ صرف ہمیں آئینہ دکھایا گیا ہے، کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا یہ سب، کتنے ہی “مجرموں” کو سر عام زندہ جلا دیا گیا ہے، کئی ڈاکوؤں کو مشتعل ہجوم کھڑے کھڑے مار چکا ہے۔ ان دو معصوموں کی مبینہ بے گناہی اس لئے سامنے آئی ہے تاکہ یہ جو شکوہ کرتے ہیں نا کہ صدی کا بد ترین سیلاب ہم ’مسلمانوں‘ پر ہی کیوں آیا۔۔۔۔ گریبان میں جھانک لیں۔
اور کیا لکھنا اس پر۔۔۔۔۔۔ میں تو ویڈیو پہ کلک بھی نہیں کر سکا۔۔۔۔ پہلے ہی دل سے خیال نہیں جا رہا۔ میں تو دعاؤں میں کثرت سے “رب اغفر والرحم انت خیر الراحمین” مانگتا ہوں،اگر اپنی بے حسی کی انتہا کی ویڈیو دیکھ لی تو جو لبوں سے بُڑ بُڑ نکلتی ہے وہ بھی جاتی رہے گی۔ ارے! تمہیں خدا سے رحم مانگتے شرم نہیں آتی!