دنیا کی اس بھیڑ میں ملنے والا ہر شخص ایک چلتی پھرتی داستان ہوتا ہے۔ بندہ نکلتا مغرب کیلئے ہے اور قدرت اسے مشرق میں پہنچا دیتی ہے۔ بعض اوقات یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں جانا ہے اور کونسا راستہ صحیح ہے۔ لوگ ملکوں ملکوں کی خاک چھان کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں اور پھر تھک ہار کر اسی کو اپنی منزل قرار دے کر ٹھہر جاتے ہیں۔ انسان اپنے آپ کو تسلیاں ہی دیتا رہ جاتا ہے کہ ہاں، یہی تو میری منزل تھی!
شام کے ڈھلتے سورج کی پھیکی سی روشنی میں ماں کے آنسوؤں اور باپ کے پریشان چہرے سے نظر بچانے کیلئے کبھی اپنا سامان چیک کرتے ہیں، تو کبھی چھوٹے بہن بھائیوں کو نصیحتیں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ روز بات کروں گا تیرے سے ٹیلیفون پہ، پڑھائی ٹھیک سے کرنی ہے، رو کیوں رہی ہے، تیرے لئے کھلونے بھیجوں گا ناں۔۔۔۔۔۔ اگر کبھی کوئی ٹائم ٹریول کر کے واپس اس لمحے میں جا کر اپنی آوازیں سنے تو یقین نہ کرے کہ یہ سب کچھ کہا تھا میں نے، یہ سب کچھ چھوڑا تھا میں نے، اور کیا پانے کیلئے۔۔۔!۔
گھر کی دہلیز پار کرتے ہی اٹکے ہوئے آنسو بھی دہلیز پار کر جاتے ہیں۔ لیکن آنکھیں صاف کرتے ہوئے چند یاروں دوستوں کے ساتھ ایک دفعہ تو دماغ سے ہر نقش صاف کرکے صرف اور صرف راستے کا نقشہ تازہ کرتے ہیں۔ اور باقی کی ساری زندگی انہی تصویروں اور نقوش کو سوچ سوچ کر، کھرچ کھرچ کر اپنا اندر لہولہان کرتے رہتے ہیں۔
پچیس سال پہلے آج ہی کے دن، مشرقی جرمنی کے شہر لائپزگ میں شہر کے مرکز میں واقع نکولائی گرجا گھر کے سامنے ایک احتجاج کیا گیا، جسے ’منڈے ڈیمونسٹریشن‘ (Monday Demonstration or Montagsdemonstration) یعنی ”احتجاجِ سوموار“ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ پہلا احتجاج تھا جس نے بعد کے آنے والے دنوں میں مشرقی اور مغربی جرمنی کا اتحاد یقینی بنایا۔ اس پر امن احتجاج کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مشرقی جرمن شہریوں کو حقِ رائے دہی دیا جائے اور ملک میں جمہوری حکومت کا قیام کیا جائے۔ روسی اثر کے تحت مشرقی جرمنی میں اسوقت سوشلسٹ حکومت قائم تھی اور لوگوں کو ووٹ کے حق کے علاوہ بیرون ملک سفر کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔ یہ احتجاج 4 ستمبر 1989سے شروع ہوئے اور پھر ہر سوموار اسی طرح شہر کے مرکز میں 1990 تک ہوتے چلے گئے۔ ہر احتجاج میں پہلے سے زیادہ تعداد نے شرکت کی اور ایک مہینے کے اندر اندر گرجا کے اندر اکٹھے ہونے والے چند سو لوگ ستر ہزار کے مجمع میں تبدیل ہوگئے اور حق رائے دہی کیلئے نعرہ بلند کرتے رہے، ’ہم افراد ہیں، ہم لوگ ہیں‘ (we are the people. Ger: Wir sind das Volk)۔ یہ نعرہ جمہوریت کی اساس ہے، وہ حکومت جسے جمہور چنے، وہی جمہوری حکومت ہوتی ہے۔ اس وقت کی جرمن پولیس اور فوج گو کہ احتجاج کی جگہ موجود تھی، لیکن مشرقی برلن کی طرف سے واضح احکامات نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی مداخلت یا رکاوٹ سے گریز کرتی رہی اور پر امن احتجاج پر امن ہی رہا۔ دو مزید ہفتے اسی طرح گزرے اور 23 اکتوبر کو شہر کی 5 لاکھ کی کل آبادی میں سے ساڑھے تین لاکھ سڑکوں پہ تھے۔ مغربی جرمنی کے میڈیا نے ان واقعات کو نشر کیا اور لوگوں نے مشرقی جرمنی کے دوسرے شہروں میں بھی اسی طرح سوموار کے دن احتجاجوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ عوامی پریشر اسقدر بڑھ گیا کہ 9 نومبر 1989 کو دیوارِ برلن گرا دی گئی۔ جس سے مشرقی جرمنی میں سوویت سوشلسٹ حکومت کا تقریبا خاتمہ ہوا۔ یہ احتجاجی مظاہرے بالاخر 1990 میں ختم ہوئے جب پہلی بار مشرقی جرمنی میں کثیر جماعتی انتخابات کروائے گئے اور لوگوں نے اپنے منتخب نمائندوں کو فولکس کامر یعنی پارلیمان تک پہنچایا۔ جہاں آنے والے چند ہی مہینوں میں لوگوں کی منشا اور مرضی کا خیال کرتے ہوئے دونوں جرمن ممالک کو دوبارہ متحد کرنےکا اعلان کر دیا گیا۔ اور اس طرح ایک ”نیا جرمنی“ معرض وجود میں آیا۔
ہماری جرمن کی استانی کہا کرتی تھیں کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہم دوبارہ اکٹھے ہو سکے، ورنہ دنیا میں آئے دن ایک ہی قوم بیٹھے بٹھائے دو میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اور اس طرح تقسیم ہو جاتی ہے کہ ایک نسل، ایک باپ دادا کی اولاد ہوتے ہوئے بھی ان کے درمیان اختلافات کی ایک ایسی دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے کہ اسے گرانا بعد والوں کیلئے نا ممکن ہو جاتا ہے۔ میرے ایک دوست نے کچھ ہی دن پہلے کہا تھا کہ ہم کسی سیاست یا سیاسی لوگوں یا عالمی برادری کے کہنے پہ اکٹھے نہیں ہوئے تھے، بلکہ یہ لوگوں کا فیصلہ تھا۔ جب لوگوں کو ان کے حقوق نہیں ملے اور وہ غربت سے اکیلے لڑنے کیلئے تنہا چھوڑ دیئے گئے، یہاں تک کہ ساتھ والے ملک میں جا کر روٹی کمانا بھی منع کر دیا گیا تو انہوں نے آواز اٹھائی اور اسوقت تک خاموش نہیں ہوئے جب تک سب نے سن نہ لی۔
شاید آپ لوگوں نے کہیں پڑھا ہوگا کہ انسان نے جب معاشرے کی بنیاد رکھی تو اسنے آپس میں میل جول، اور احساسات کے تبادلے کیلئے آواز کا سہارا لیا۔ زمانہ قبل تاریخ میں یہ آوازیں مختلف جانداروں کی آوازوں سے مشابہ ہوتی تھیں اور انہی کی عادات و اطوار کی نقالی کا اظہار کرتی تھیں۔ جوں جوں انسان آگے بڑھتا گیا، بقول ڈاروِن، تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی زبان بھی ترقی کرتی گئی اور اس میں پیچیدہ احساسات و جذبات کی نمائیندگی بھی شامل ہوتی گئی۔ خیر یہ تو ایک وِیکی پیڈیائی سی تمہید ہے زبان کی تاریخ کے حوالے سے، جس میں بہت سوں کو بہت سے اختلافات ہو سکتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ زبان ان چند چیزوں میں سے ایک ہے جو انسان کو باقی مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔
انسان نے معاشرے میں رہنے کیلئے اور زیادہ افراد سے رابطے کیلئے زبان کا سہارا لیا۔ رابطے کو آسان سے آسان بناتا چلا گیا، اور جب اسے احساس ہوا کہ یہ تو زیادہ ہی آسان ہوگیا، اب تو ہر کوئی بول بول کے ایک دوسرے کا دماغ کھائے گا۔ بس یہ سوچ ذہن میں آتے ہی اس نے اپنے لئے چار لفظ الگ بنائے اور وہ صرف اپنی ڈائرکٹ معشوق کو سمجھائے، تاکہ باقی انسانوں کے پلے نہ پڑے، اور یہ لیجئے ایک نئی زبان ایجاد ہو گئی۔ بس پھر کیا تھا، ہر ایک نے اپنی اپنی ڈیڑھ لفظوں کی زبان کھڑی کر لی۔ ذرا فاسٹ فارورڈ کریں اور موجودہ دور میں آ جائیں، کہاں تو ایک بھی زبان نہیں تھی اور انسان ٹارزن کی طرح ’آؤوؤوؤوؤو‘ کی آواز نکال کر ہی پورے جنگل سے لائیو خطاب کر لیتا تھا اور کہاں اب ہزاروں کی تعداد میں موجود زبانیں! صرف بھارت میں ہی تقریباً ایک ہزار سے زاید زبانیں بولنے والے لوگ موجود ہیں۔
ذکر ہو زبانوں کا اور جرمن زبان کی بات نہ ہو، یہ ایسے ہی ہے جیسے تھانے کی بات ہو اور چِھتّر کا ذکر نہ کیا جائے۔[مکمل تحریر پڑھیں]
بازار کے کونے پہ ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ مسجد کا ایک دروازہ دوسری جانب جی ٹی روڈ کی طرف فٹ پاتھ کے ساتھ کھلتا ہے۔ گیٹ کے بالکل ساتھ دیوار پہ ایک آئینہ لٹک رہا ہے، سامنے ایک پرانی، بلکہ قدیم کرسی رکھی ہے۔ کرسی کی ایک ٹانگ کے نیچے اینٹ رکھ کے اسے بیٹھنے کے قابل بنایا گیا ہے۔ آئینے کے نیچے ایک لکڑی کے تختے کی شیلف سی بنا کر اس پہ حجامت بنانے کا سامان رکھا ہوا ہے۔ یہ ہے شہر کی سب سے پرانی نائی کی دکان۔ سڑک کے کنارے، درخت کے نیچے اور مسجد کے ساتھ بنی اس دکان کی دھندلی سی یادیں اب بھی ذہن میں محفوظ ہیں۔ فٹ پاتھ بننے سے پہلے سڑک کے کنارے پرانا اور گھنا درخت تھا، جس کے نیچے ٹوٹے ہوئے لکڑی کے ایک دو بینچ رکھ کر اپنی حجامت کا انتظار کرنے والوں کیلئے بیٹھنے کے ساتھ ساتھ تازہ اخبار کا انتظام بھی ہوتا تھا۔ ان بنچوں پر ایک دو بابے مستقل ہی بیٹھے ہوتے تھے۔ جب بھی وہاں سے گزر ہوا، ان کو وہاں ہی بیٹھے دیکھا۔صبح سویرے بابا جی ہاتھ میں اخبار پکڑے ابھی بمشکل سرخی ہی پڑھتے تھے اور اسلم نائی حاجی صاحب کی شیو بناتے ہوئے اصل خبر اس کے بقیہ حصے سمیت با آواز بلند سنا دیا کرتا تھا۔ پھر ہر خبر پہ سیر حاصل تبصرہ، مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل، موجودہ حکومت کی نا اہلیاں اور آئیندہ امیدواروں کی تعریف سب کچھ ایک ہی پیکج میں شامل ہوتا تھا۔[مکمل تحریر پڑھیں]
مس حمیرا، یہ نام انہیں میرے ایک دوست نے دیا تھا۔ اصل نام تو ان کا عجیب سا ہے، جیسے کہ تمام جرمن نام ہوتے ہیں جو منہ ٹیڑھا کئے بغیر پکارے نہیں جا سکتے۔ ان کے نام میں بھی جرمن حروف تہجی کا واول استعمال ہوتا ہے اور واول کی آواز جرمن منہ سے نہیں نکالتے ۔۔۔۔۔۔ [1] سے نکالتے ہیں۔ ان کا نام مس حمیرا رکھنے کی ایک وجہ تو یہی تھی اور دوسری وجہ بقول میرے دوست کے کہ ہر ایک کی اسکول لائف میں ایک مس حمیرا ضرور ہوتی ہیں۔ یہ کسی شخصیت کا نام نہیں بلکہ ’ایک سوچ‘ کا نام ہے۔ ایک ایسی مِس جو صبح کلاس میں آئے تو ناشتے کی افادیت، یونیفارم کی صفائی، رات کو جلدی سونے جیسے معاملات پہ ہی پونا گھنٹا لگا دے اور آخر میں کہہ دے: ”اوہ، ٹائم ختم ہو گیا، آپ لوگ ایسا کریں کہ کل والا ہوم ورک ہی ایک بار پھر کریں۔“ جنہیں ہوم ورک سے زیادہ کاپیوں پہ چڑھائے کور اور خوشخط لکھے نام میں دلچسپی ہو۔ اگر بریک کے بعد کسی کلاس میں جائیں تو بچوں کی آپسی لڑائیاں، شکائتیں، شرارتیں سننے میں اور ان میں صلح صفائی کرانے میں ہی چھٹی کے وقت تک الجھی رہیں۔ چھٹی سے پہلے بچوں کو اس طرح ہدایات دیں کہ ایسا لگے جیسے ’امی‘ لگ گئی ہیں ہماری! پرنسپل صاحب اگر اسمبلی میں پوائنٹ آؤٹ کرتے ہوئے کہہ دیں کہ ان کی کلاس کے بچوں کے یونیفارم صاف نہیں ہیں تو سارا دن اسی ٹینشن میں ہلکان ہوتی پھریں کہ اگر ان کا بس چلے تو سٹاف روم میں ہی واشنگ مشین لگا کے یونیفارم دھونا شروع کر دیں۔ امتحانوں میں بچوں کو ازراہ ہمدردی ہی سارا پرچہ حل کروا دیں اور ہیڈ مسٹریس کو کہہ دیں کہ میں تو بس سوال کا مطلب سمجھا رہی تھی! اسی لئے ہیڈ مسٹریس امتحانوں میں انہیں ’انتظامی کام‘ سونپ دیتی ھیں، جیسے کلاسوں میں کرسیوں کی تعداد چیک کرنا، ٹھنڈے پانی کی فراہمی یقینی بنانا، وغیرہ۔[مکمل تحریر پڑھیں]
میں، کتابیں اور انٹرنیٹ
لُوپ اَنٹل اِنفینیٹی
رات کے پونے دو بجے ہیں اور میں اپنے سامنے امتحان کی تیاری کا سارا سامان کھولے بیٹھا ہوں۔ چیپس کا پیکٹ، بھاپ اڑاتا مگ، چاکلیٹس، ٹک ٹک کرتی گھڑی، لیپٹاپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ ہاں! کتاب، نوٹس، قلم دوات وغیرہم بھی پاس ہی رکھے ہیں۔ لیکن میں سوچ کچھ اور رہا ہوں۔ کبھی میں لیپٹاپ کھول کے یہ دیکھتا ہوں کہ کوئی ای میل تو نہیں آ گئی “ضروری” والی۔ پھر یونہی ذرا ازراہ تفنن ہلکی سی فیس بک پہ نظر ڈال لیتا ہوں۔ اوہ ایک نوٹیفیکیشن! اوہ ہ ہ ۔۔ اچھا یہ تو کسی اور نے کمنٹ کیا ہے۔ہمممم۔ دفعہ کرو اس فیس بک کو۔ اصلی والی بُک کھولو۔ چار لفظ پڑھے اور ساتھ ہی ایک گھونٹ چائے کا لگایا، اوہو چینی تو ڈالنا ہی بھول گیا۔ نہیں یہ تو نہیں ہو سکتا، چینی تو میں نے ضرور ڈالی ہوگی۔ ارے ہاں، چمچ ہلانا بھول گیا تھا۔ اٹھ کر چمچ لینے گیا، واپسی پہ بس یونہی فریج بھی کھول کے دیکھ لیا۔ کیا پتا کوئی اپڈیٹ کر گیا ہو سٹف! [مکمل تحریر پڑھیں]
پتا نہیں کیا سوچ کر میں نے ہاں کی تھی آئس سکیٹنگ کیلئے۔ جیسے ہی ”بلیڈوں والے بوٹ“ پہن کر کھڑا ہوا، کچھ نہیں ہوا! یہ چینجنگ روم (changing room) تھا اور یہاں مخصوص ربڑ کا فرش بچھا ہوا تھا جس پہ کھڑا ہونا انتہائی اسان تھا۔ بھاری قدم اٹھاتا میں دروازے کی طرف بڑھا اور دروازہ کھول کے چوکھٹ پکڑ کر باہر کا جائزہ لیا۔ دو تین سیڑھیاں اتر کر آگے برف شروع ہو جاتی ہے اور پھر چند قدم کے فاصلے پہ ایک حصار بنا کر سکیٹنگ کیلئے رِنک (rink) تیار کیا گیا ہے۔ پہلا قدم باہر رکھا اور ۔۔۔۔ بڑی مشکل سے سنبھلا کیونکہ سیڑھیوں پہ ربڑ نہیں تھی۔ سٹیل کی ٹھنڈی یخ ریلنگ کو مضبوطی سے پکڑ کر اگلا قدم اٹھایا۔ ریلنگ کے سہارے میں ایسے نیچے اتر رہا تھا کہ گھنٹے بالکل مڑے ہوئے تھے اور جسم تقریبا زمین کو چھو رہا تھا، جیسے کوئی اپاہج شخص پہلی بار وہیل چیئر سے اٹھ کر سیڑھیاں اترنے کی کوشش کر رہا ہو۔ بچپن میں نصاب کی کتاب میں ایک کہانی پڑھی تھی جس میں زرافے کے پانی پینے کا منظر بیان کیا گیا تھا، میں ہمیشہ اس کہانی کو پڑھ کر اس منظر کو لاشعور میں تخلیق کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک تو اس میں ایسے ایسے مشکل الفاظ تھے اور دوسرے زرافے کے پانی پینے کا انداز پتا نہیں کیسا ہوتا ہے کہ کبھی بھی میں اس کو چشمِ تصور سے ’ریئلائز‘ نہ کر سکا تھا۔ لیکن آج مجھے احساس ہوا کہ شاید وہ منظر کچھ اس قسم کا ہی نظر آتا ہو گا۔ کیونکہ جس انداز میں میرا جسم مڑا ہوا تھا اور میں پھسلنے سے بچنے کی کوشش میں سہارا تھامے ہوئے تھا۔ سیڑھیاں اتر کر اب ریلنگ کو چھوڑ کر آگے رِنک تک جانا تھا، بمشکل تین قدم کا فاصلہ تھا لیکن تین کوس لگ رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست کو دیکھا جو کہ اب تک رِنک کے قریب پہنچ چکا تھا اور اس کی دیوار کا سہارے لے کر آگے بڑھ رہا تھا۔ میں اب بھی ریلنگ کس کے پکڑے ہوئے تھا اور پاؤں احتیاط سے آگے رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب یا تو میں ریلنگ پکڑ کر کھڑا رہتا یا اسے چھوڑ کر آگے بڑھ سکتا تھا، لیکن میں نے ریلنگ کو تو چھوڑنا نہیں تھا، اور قدم بھی آگے رکھنے تھے۔ اب اس کوشش میں میں ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے پاؤں کوئی اور چلا رہا ہے اور ہاتھ کسی اور نے پکڑے ہوئے ہیں!۔ میرے دوست نے مڑ کر دیکھا اور ہنس کر کہا کہ یار ریلنگ کو تو چھوڑ دو۔ میں نے کہا یعنی کہ گِر جاؤں؟ وہ بیچارہ واپس آیا اور میری طرف ہاتھ بڑھا کے بولا کہ وہاں سے ہاتھ چھوڑ کر مجھے پکڑ کر آگے چلو لیکن دھیان سے کیونکہ میں بھی زیادہ مہارت نہیں رکھتا اور وزن نہیں سنبھال سکوں گا۔ وہ دو قدم میں ایسے چلا جیسے پُل صراط پہ چل رہا ہوں۔ تیسرا قدم رکھتے ہی میں نے فورا رِنک کی دیوار کا سہارا لیا اور فاتحانہ انداز میں وہیں کھڑا ہو گیا۔ مڑ کر دیکھا تو برف میں میرے قدموں کے نشان ایسے تھے جیسے کوئی لکڑی کی ٹانگیں گھسیٹ کر یہاں تک آیا ہے۔ دیوار کا سہارا لے کر میں اپنے دوست کے پیچھے پیچھے پاؤں گھسیٹتا رِنک کے داخلی راستے تک آیا۔ اب آگے نرم برف کی جگہ سخت اور پکی برف تھی جسے آئس کہتے ہیں۔ یعنی آئس سکیٹنگ (برف قدمی؟) تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی تھی![مکمل تحریر پڑھیں]