کھڑکی
بچپن میں جب ہم کہانیاں سنتے ہیں تو ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ جب ہم بڑے ہو جائیں گے تو ہمارے بچپن کی سچائیاں خود ہمارے لئے ہی ایک کہانی بن جائیں گی۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں چھ سات سال کا تھا۔ ہم ایک درمیانے سائز کے مکان میں رہتے تھے۔ اس مکان کا دروازہ ایک انتہائی تنگ گلی میں تھا، جس کا ایک سِرا بازار میں کھلتا تھا جب کہ دوسرے سرے پہ ایک اور مکان کا دروازہ تھا جو اکثر بند ہی رہتا تھا۔ گلی محض ڈھائی تین فٹ چوڑی ہوگی اور دونوں طرف موجود اونچی دیواروں کے باعث مزید تنگ محسوس ہوتی تھی۔ ہمارے گھر کا دروازہ گلی کے دوسرے سرے پہ موجود بند دروازے کے ساتھ ہی تھا۔
مجھے ہمیشہ گلی کے نکڑ سے اپنے گھر تک جانے میں بہت ڈر لگتا تھا۔ گلی میں داخل ہوتے ہی میں اس طرح تیز تیز چلنا شروع کر دیتا تھا کہ جیسے وہ لمبی دیواریں مزید تنگ ہو رہی ہوں اور میرے گھر تک پہنچنے سے پہلے ہی آپس میں مل جائیں گی۔ اس خوف کی وجہ جو بھی تھی لیکن یہ خوف اب بھی کبھی کبھار سامنے آ جاتا ہے۔ میرے خیال میں ہم سب کے لاشعور میں تنگ جگہوں کا خوف ازل سے موجود ہے۔
[مکمل تحریر پڑھیں]