بچپن میں جب ہم کہانیاں سنتے ہیں تو ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ جب ہم بڑے ہو جائیں گے تو ہمارے بچپن کی سچائیاں خود ہمارے لئے ہی ایک کہانی بن جائیں گی۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں چھ سات سال کا تھا۔ ہم ایک درمیانے سائز کے مکان میں رہتے تھے۔ اس مکان کا دروازہ ایک انتہائی تنگ گلی میں تھا، جس کا ایک سِرا بازار میں کھلتا تھا جب کہ دوسرے سرے پہ ایک اور مکان کا دروازہ تھا جو اکثر بند ہی رہتا تھا۔ گلی محض ڈھائی تین فٹ چوڑی ہوگی اور دونوں طرف موجود اونچی دیواروں کے باعث مزید تنگ محسوس ہوتی تھی۔ ہمارے گھر کا دروازہ گلی کے دوسرے سرے پہ موجود بند دروازے کے ساتھ ہی تھا۔
مجھے ہمیشہ گلی کے نکڑ سے اپنے گھر تک جانے میں بہت ڈر لگتا تھا۔ گلی میں داخل ہوتے ہی میں اس طرح تیز تیز چلنا شروع کر دیتا تھا کہ جیسے وہ لمبی دیواریں مزید تنگ ہو رہی ہوں اور میرے گھر تک پہنچنے سے پہلے ہی آپس میں مل جائیں گی۔ اس خوف کی وجہ جو بھی تھی لیکن یہ خوف اب بھی کبھی کبھار سامنے آ جاتا ہے۔ میرے خیال میں ہم سب کے لاشعور میں تنگ جگہوں کا خوف ازل سے موجود ہے۔
ہمارے مکان کی دوسری منزل پہ ایک ہی کمرہ تھا۔ اس کمرے کی ایک کھڑکی باہر اسی گلی میں کھلتی تھی لیکن کھڑکی اونچی ہونے کی وجہ سے مخالف سمت کی دیوار گلی کے پار کے ‘منظر’ کو روکنے میں ناکام تھی۔ پورے گھر میں میری واحد اٹریکشن وہ کھڑکی ہی تھی۔ ہلکے سبز روغن والے ان کواڑوں کا تعلق براہ راست میرے دماغ سے تھا۔ جیسے کسی میٹا فزیکل متوازی دنیا میں کھلنے والا ایک پورٹل ہوتا ہے۔
میرے لئے وہ پورٹل اس گلی کے خوف سے بھاگ نکلنے اور آگے موجود ‘کھلی’ فضا تک رسائی کا ایک ذریعہ تھا۔ شاید یہ میں ہی تھا یا پھر بچے ہوتے ہی ایسے ہیں، سنی سنائی یا پڑھی ہوئی کہانیوں کے تمام کردار اپنے انہی چند گھروں اور گلیوں کی محدود سی کائنات میں تلاش کر لیتے ہیں۔ میں اس کھڑکی سے باہر کا ‘منظر’ دیکھتے ہوئے ایسے کھو جاتا تھا جیسے کوئی شہزادہ اپنے قلعے نما محل کے سب سے بلند مینار پہ لہراتے جھنڈے کے ساتھ کھڑا دور تک پھیلی اپنے باپ کی سلطنت کا نظارہ کررہا ہو۔ قلعے کی فصیل پہ فخر سے اپنا دایاں پاؤں رکھے میں نیچے موجود اس گہری تنگ کھائی سے بھی بے خبر ہو جاتا تھا جس میں حفاظت کے طور پہ بڑے بڑے مگر مچھ چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔
ہمارے شہر کےچھوٹے سے اس محلے میں گھروں کی چھتیں اس طرح ساتھ ملی ہوئی تھیں کہ کھڑکی سے دیکھو تو سب چھتیں ایک ہی مکان کی لگتی تھیں لیکن ان مکانوں کے چھوٹے چھوٹے بنیرے بعض اوقات بلندی میں فصیلوں کو بھی مات دے جاتے ہیں۔
ان کچی پکی چھتوں پہ کودتے، پتنگ اڑاتے بچوں میں مجھے کبھی کوئی دلچسپی نہیں محسوس ہوتی تھی۔ میری اپنی دنیا میں اس سے کہیں زیادہ دلچسپیاں تھیں۔ ہاں، ان بغیر پلستر کی دیواروں والی چھتوں سے پرے ایک سبز بنیرے والی چھت تھی۔ اس چھت میں مجھے ہمیشہ کچھ خاص بات لگتی تھی۔ وہ چھت میری اس محدود سی دنیا کا دوسرا سِرا تھی۔ اس کھڑکی سے نظر آنے والے آخری کنگرے تھے وہ۔ اُس چھت کی ایک دیوار سے باہر کی طرف جھکی ہوئی انگور کی بیل کو دیکھ کر مجھے یقین سا ہو گیا تھا کہ اس محل نما گھر میں ہوا میں معلق باغات بھی ہیں۔ میرے نزدیک چھتوں اور دیواروں کے اس گنجل میں موجود وہ خوبصورت، نفیس اور کشادہ چھت کسی محل کی ہی ہو سکتی تھی۔
یوں تو برسات کے موسم میں میرے گھر والے پریشان ہی رہتے تھے۔ کبھی بارش کا پانی گلی میں کھڑا ہوتا تو کبھی چھتیں ٹپکنا شروع کر دیتیں لیکن میرے لئے برسات میں ایک خاص ہی کشش تھی۔ چھت کے پرنالے سے گلی میں گرتے اور نالیوں میں دوڑتے ہوئے پانی کی آواز اس کھڑکی سے گزر کر جب مجھ تک پہنچتی تو ایسے سنائی دیتی جیسے دور جنگلوں میں آبشاریں بہہ رہی ہیں۔ ویسے جنگل جیسے میری کہانیوں میں تھے، جن میں درندے نہیں بلکہ آسمان سے فرشتے اترتے تھے۔ ایسے میں ہوا میں معلق اس محل کے باغات کا تصور، (جو کہ اس کھڑکی کے ساتھ ہی مشروط تھا بالکل ایسے جیسے موجودہ دور میں آگمنٹیڈ ریئلیٹی!)۔
کشادہ چھت پہ ٹہلنے کا انجانا احساس، ممٹی کے نیچے بندھی پینگ پہ بیٹھنے کی خواہش، جو اکثر خالی ہی جھولتی رہتی تھی، مجھے اپنے گھر اور گھر والوں کے مسائل سے دور کر دیتی تھی۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہاں کون رہتا ہے، کب سے رہتا ہے، کب جائے گا، میں تو بس اس محل کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اس چھت پہ ٹہلنا چاہتا تھا۔ اپنی اس کھڑکی سے پرے ‘اپنی دنیا’ ایکسپلور کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اماں مجھے گلی میں زیادہ دیر نکلنے نہیں دیتی تھیں۔ سکول سے واپسی پر یا پرچون والے سے کوئی چیز لاتے ہوئے، اماں کی انگلی پکڑے میں اپنی گردن چاروں طرف گھماتا رہتا تھا اور نظریں ہمیشہ اس محل کے سنہری پھاٹک کو ڈھونڈتی تھیں۔
چھت پہ کھڑے ہو کر بھی میں نے کئی بار چھتوں کی ان بھول بھلیوں کو بازار اور گلیوں پہ مَیپ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی لیکن ہمیشہ اپنی اس تنگ خوفناک گلی سے باہر نکلتے ہی دنیا بدل جاتی تھی۔ وہ کھڑکی اور اس سے نظر آتا باہر کا منظر ہمیشہ ایک متوازی دنیا کی طرح میرے دماغ میں موجود رہا۔ البتہ یہ بتانا اب ذرا مشکل ہے کہ کب اور کیوں وہ کھڑکی ہمیشہ کیلئے بند ہوئی اور میرا بچپن بھی اسی کھڑکی سے باہر رہ گیا۔
انسان کے خواب ہمیشہ اس کے ساتھ جوان تو ہوتے ہیں لیکن اس وقت تک وہ بچپن کے خواب کی طرح آزاد نہیں رہتے۔ وہ گھر میرا خواب تھا۔
آج جب بیس سال بعد ہم ملے ہیں تو پوری رات گھر، محلے، شہر کی باتوں میں ہی گزر گئی۔ پاکستان سے باہر بسنے والے لوگ جب اپنوں سے بات کرتے ہیں تو پتا نہیں کہاں کہاں کی خبریں پوچھتے ہیں۔ اپنا حال چھپانے کی کوشش میں وہ اس کا حال بھی پوچھتے رہتے ہیں جس سے کبھی تعلق بھی نہ رہا ہو۔
جہاں آنکھیں صرف خواب ہی دیکھتی ہیں، وہاں ان کی ادھورے خوابوں کو پانے کی جدوجہد کون سننا چاہے گا۔ اپنے خوابوں کی تلاش میں میں نے کہاں کہاں کی خاک چھانی تھی، یہ راز میرے ساتھ ہی دفن ہونا ہے۔ میں خاموشی سے بس سن رہا تھا کہ وہ بولا: “تمہارے جانے کے چار سال بعد ہم نے محلے کا سب سے بڑا مکان خرید لیا تھا۔ وہی جو ہمارے اوپر والے کمرے کی کھڑکی سے نظر آتا تھا، جس کی سبز بنیروں والی چھت پہ ایک پینگ بھی لٹکی رہتی تھی۔”
[میری یہ تحریر ڈان اردو کی ویبسائٹ پہ 11 فروری،2013 کو شائع ہوئی۔ ]
مستقل لنک
جہاں آنکھیں صرف خواب ہی دیکھتی ہیں، وہاں ان کی ادھورے خوابوں کو پانے کی جدوجہد کون سننا چاہے گا۔ اپنے خوابوں کی تلاش میں میں نے کہاں کہاں کی خاک چھانی تھی، یہ راز میرے ساتھ ہی دفن ہونا ہے۔
بہت بہترین صاحب بہت بہترین
مستقل لنک
شکریہ ارسلان۔
مستقل لنک
بہت عمدہ عمیر بھائی بہت عمدہ اپنے بچپن کے خواب یاد دلا دیئے۔ ایک بات آپ نے بالکل درست کہی ہم سب کے اندر ایک نہ ایک خوف ضرور ہوتا ہے۔ جو جاتے جاتے بھی نہیں جایا کرتا۔
مستقل لنک
ap yakeen karo gy k usi halkay sabz rang wali khirki jis ko gehra sabz rang krwaa kr hum nay naya kynay ki nakaam koshish ki ti ,main nay b us say nazr ati angoor ki bail walay ghar main rehnay ki tamanna ki thi..laikin sirf tamnna..aisa lagta tha apnay Rabb sy apni okaat sy kaheen ziada mang lia hy ,or isi waja sy kbi khul kr apnay Rab sy nai manga..us kachi umer main b itni samaj ti k kitna mangna hy,laikin ye nai pata tha k ye wo Raab hy jo okaat nai dil dekhta hy,mangnay walay ki shiddat dekhta hy…or kbhi kbhi tu shaoor main anay sy phlay b ata kr deta hy………main ny sunna tha k kbi kbi insan aik phol ki khuwahish apnay raab sy krta hy,us k liay rota dhota hy.pr mera Rab-e-kareem usy pora guldasta dena chah raha hota hy….or mujh sy ziada lucky kon ho gisay meray rub nay phol ki khuwahish pr phol ata kia jo k meray liay dunia k kisi guldastay sy kam nai tha,,main tu bus us toti sabz khirki main beth kr he us ghar ki sair kr lia krti thi q k middal clas main prwarish panay ki waja sy apni khuwahishat ko kaboo krna buhat khub ata tha..or aj main jis ghar main bethi hon u know wo meray RUB ka ata krta guldasta hy tu ap khud imagin kr lo mujh haqeer insaan ki tamnna kiay gaey sub phol or guldastay peechay reh gaey hain..tu q na main us RUB ki zaat ki raza main razzi hon jis nay na razi honay ki koi gunjaish he nai chori..agar gunjaish chori hy tu sirf sajda-e-sukar ki ,jo krnay k liay puri zindgi b nakafii hy……………
مستقل لنک
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ تحریر کسی اور کی بھی خواہش کو لفظ دے گی۔ وہ سبز کھڑکی دنیا کی تمام کھڑکیوں سے زیادہ خوبصورت منظر دکھاتی تھی ہمیشہ۔ پتا نہیں اب اس پہ گہرے سبز کے بعد کونسا رنگ ہوا ہوگا اور اس میں سے کسی اور کو بھی کچھ دکھائی دیتا ہے کہ نہیں۔
اور واقعی انسان نا شکرا ہے ورنہ رب نے تو عطا کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں اٹھائی۔ قیمتی اور طویل تبصرہ کرنے کا بہت شکریہ۔ مجھے ہمیشہ بہت خوشی ہوتی ہے جب کوئی ایسا شخص تحریر کو پسند کرتا ہے جو اسی جگہ کھڑا ہو کر ان الفاظ کا مطلب سمجھ سکتا ہے۔
مستقل لنک
thanxx dear,,us khirki nay tu apnay manzr badal diay hain,,or uska manzr tadeel krnay walay b hum he hain,,,u know na??laikn ye tu such hay k hr jhonpri main rehnay wali sehzadi or mehal main rehnay wali sehzadi k ghar ki khirki usy isi trha aik nai dunia ki sair zror krwati ho gi…………..