مس حمیرا
مس حمیرا، یہ نام انہیں میرے ایک دوست نے دیا تھا۔ اصل نام تو ان کا عجیب سا ہے، جیسے کہ تمام جرمن نام ہوتے ہیں جو منہ ٹیڑھا کئے بغیر پکارے نہیں جا سکتے۔ ان کے نام میں بھی جرمن حروف تہجی کا واول استعمال ہوتا ہے اور واول کی آواز جرمن منہ سے نہیں نکالتے ۔۔۔۔۔۔ [1] سے نکالتے ہیں۔ ان کا نام مس حمیرا رکھنے کی ایک وجہ تو یہی تھی اور دوسری وجہ بقول میرے دوست کے کہ ہر ایک کی اسکول لائف میں ایک مس حمیرا ضرور ہوتی ہیں۔ یہ کسی شخصیت کا نام نہیں بلکہ ’ایک سوچ‘ کا نام ہے۔ ایک ایسی مِس جو صبح کلاس میں آئے تو ناشتے کی افادیت، یونیفارم کی صفائی، رات کو جلدی سونے جیسے معاملات پہ ہی پونا گھنٹا لگا دے اور آخر میں کہہ دے: ”اوہ، ٹائم ختم ہو گیا، آپ لوگ ایسا کریں کہ کل والا ہوم ورک ہی ایک بار پھر کریں۔“ جنہیں ہوم ورک سے زیادہ کاپیوں پہ چڑھائے کور اور خوشخط لکھے نام میں دلچسپی ہو۔ اگر بریک کے بعد کسی کلاس میں جائیں تو بچوں کی آپسی لڑائیاں، شکائتیں، شرارتیں سننے میں اور ان میں صلح صفائی کرانے میں ہی چھٹی کے وقت تک الجھی رہیں۔ چھٹی سے پہلے بچوں کو اس طرح ہدایات دیں کہ ایسا لگے جیسے ’امی‘ لگ گئی ہیں ہماری! پرنسپل صاحب اگر اسمبلی میں پوائنٹ آؤٹ کرتے ہوئے کہہ دیں کہ ان کی کلاس کے بچوں کے یونیفارم صاف نہیں ہیں تو سارا دن اسی ٹینشن میں ہلکان ہوتی پھریں کہ اگر ان کا بس چلے تو سٹاف روم میں ہی واشنگ مشین لگا کے یونیفارم دھونا شروع کر دیں۔ امتحانوں میں بچوں کو ازراہ ہمدردی ہی سارا پرچہ حل کروا دیں اور ہیڈ مسٹریس کو کہہ دیں کہ میں تو بس سوال کا مطلب سمجھا رہی تھی! اسی لئے ہیڈ مسٹریس امتحانوں میں انہیں ’انتظامی کام‘ سونپ دیتی ھیں، جیسے کلاسوں میں کرسیوں کی تعداد چیک کرنا، ٹھنڈے پانی کی فراہمی یقینی بنانا، وغیرہ۔[مکمل تحریر پڑھیں]