اوائل جنوری کی نرم اور مدھم دھوپ اس ٹھٹھرتے شہر کو پھر سے زندگی کا پیغام دے رہی تھی۔ پچھلے دو دن وقفے وقفے سے ہونے والی برف باری نے ہر طرف دودھیا چادر تان رکھی تھی، لیکن اب سورج کی شعائیں اس چادر میں جگہ جگہ شگاف کرتی نظر آرہی تھیں۔ درختوں کی ننگی شاخوں سے ٹپکتے پانی کے قطرے جہاں گرتے وہاں ایک ننھا سا گڑھا بنا جاتے۔ اپارٹمنٹ کی پچھلی طرف موجود کھیل کے میدان میں ایک نوجوان جوڑا ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، برف میں اپنی قدموں کے نشان چھوڑتا بنچ کی جانب بڑھ رہا تھا۔ پچھلی طرف کھلنے والی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ یخ ہوتے شیشے سے ناک چپکائے وہ اسی جوڑے کو دیکھ رہی تھی، جن کے پیچھے پیچھے دو کتے دم ہلاتے ہوئے، برف میں اٹھکھیلیاں کر رہے تھے۔ نوجوان لڑکے نے آگے بڑھ کر بنچ پہ موجود برف کی دبیز تہہ کو ہٹایا اور لڑکی کے بیٹھنے کی جگہ بنائی۔ آنکھوں میں تشکر کا احساس لئے لڑکی نے پیار سے نوجوان کی طرف دیکھا اور ۔۔۔۔۔۔۔ پھر سنبھلتے ہوئے بنچ پہ بیٹھ گئی۔ زونال کی آنکھیں ایک دم دھندلا گئیں۔ باورچی خانے سے آتی کُکر کی سیٹی کی آواز اسے واپس کمرے میں لے آئی۔
یہ ہے خواتینی ڈائجسٹوں کے دسمبری شماروں کی ایک ٹیپیکل کہانی کی شروعات۔۔۔۔ جس کو پڑھ کے ہمارے ڈائجسٹ زدہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ واہ، کیا زندگی ہوتی ہو گی ان برفیلے ملکوں کی! جیسے ہی بندہ گھر سے باہر قدم رکھتا ہو گا، روئی کے نرم گالوں جیسی برف اس کے گالوں کو ایسے چھوتی ہو گی جیسے نرم گلابی ہونٹ بوسہ لے رہے ہوں۔ پاس والی بلڈنگ کی ایڈنا اپنے لیٹر بکس میں جھانکتی ہوئی آپ کو مسکرا کر ہیلو کہتی ہو گی تو جلترنگ بجنے لگتے ہوں گے۔ گیٹ کے باہر کھڑی جولیا آج پھر لیٹ آنے پر آپ کو ایسے میٹھا سا ڈانتی ہو گی جیسے کوئی کہہ رہا ہو ”تو لنگ جا ساڈی خیر اے!“۔۔۔ پروفیسر آپ کی مثال دیتے ہوئے باقی کلاس کو شرم دلاتا ہو گا کہ باقی سب بھی اس کی طرح محنت کریں۔ شام کو کرسمس مارکیٹ میں گھومتے ہوئے آپ کے گرد موجود 5 لڑکیاں آپ کے ’سلی‘ جوکس پہ ایسے ہنستی ہوں گی کہ امان اللہ بھی شرما جائے۔ ۔۔۔۔ الغرض، وہ تمام حسرتیں جو بوجوہ پاکستان میں ہمارے دلوں میں رہ جاتی ہیں، اور سمجھا جاتا ہے کہ یورپ میں تو سب کچھ ”فریج میں لگی بوتلوں“ کی طرح ملتا ہے۔ یہ غبارہ پھوٹتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ برف سے متعلق تمام رومانوی باتیں انتہائی چوؔل، فضول ، جھوٹی اور گندی ہیں۔ مائینس 10 سے 20 کے درمیان جذبات تو کیا جذبات جگانے والے ہارمونز بھی جام ہو جاتے ہیں۔تین تین فٹ برف میں ایسے چلنا جیسے سرکس میں تنی ہوئی رسی پہ چلا جاتا ہے ذرا سا بھی رومانوی نہیں ہے۔ صبح نو بجے ایک منٹ لیٹ ہو جاؤ اور بس چھوٹ جائے، تو پھر پیدل چلنا پڑے اور جب کمرے میں داخل ہو اور پروفیسر کا پہلا سوال ہی یہ ہو کہ ہوم ورک کیا ہے کسی نے؟ ناں جواب ملنے پہ پروفیسر کا کلاس برخواست کر کے بغیر پڑھائے واپس چلا جانا۔۔۔۔۔۔وٹ دا ایلف! اب میں اس سے زیادہ کیا کہوں۔ کیمنٹس جیسے شہر میں جہاں ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ لوگ غار کے زمانے میں جی رہے ہیں، ارے سوائے آپ کے کوئی انگریزی ہی نہیں بولتا۔۔۔۔ کوئی آپ کے ہائے کا جواب دے دے تو سمجھ لیں کہ یا تو یہ دیسی ہی ہے یا پھر بینک یا انشورنس والا/والی ہے، کہ ان کو بولنے کے پیسے ملتے ہیں۔
شہرِ ضعیفاں کیمنِٹس سے ایک پرانی تحریر نشرِ مکرر کے طور پہ۔
اس اداس موسم میں ایسا کچھ تو ہے کہ جب بھی برف پڑتی ہے تو یادیں دھندلی ہونے کہ بجائے مزید واضح ہو جاتی ہیں۔ کھڑکی سے باہر دیکھو تو ایک لمبی سنسان سڑک اور اطراف پہ لگی پیلی سٹریٹ لائیٹس اکا دکا گزرتی گاڑیوں کے برف پہ بنتے بگڑتے نشان دکھا رہی ہوتی ہیں۔ (جنوری 2016)
مستقل لنک
2010 میں جب اعلی تعلیم کے نام پر گھر سے دفع ہوئے تو دل میں بڑی چاہ تھی برفباری کو زندا یعنی لائو دیکھنے کی۔ (اس خواہش کی شدت کا اندازا ہماری زیرِتحریر کتاب کے عنوان “ان سرچ آف سنؤ” سے لگایا جا ساکتا ہے۔ لیکن یہ چاہت ایک ہی “چھٹے” کی مار ثابت ہوئی اور ہمیں “ونٹر ٹایم استھما (دمہ(” کا تحفہ دے گئی اور ہم نے یہ نتیجا اخز کی کہ یہ جان نو آنی برف صرف کلنڈر اور تصاویر میں ہی اچھی لگتی ھے۔
مستقل لنک
بس یہی لائیو دیکھنے کی چاہتیں یہاں کھینچ لاتی ہیں سبکو۔۔۔
تبصرہ کرنے کا بہت شکریہ۔
مستقل لنک
ہو سکتا ہےآپ یورپ کے غریبی والے دنوں میں وہاں پہنچے ہیں۔۔۔ جبکہ ڈائجسٹوں والے کچھ سال پہلے ہو آئے ہوں :ڈ
مستقل لنک
امیری کے دنوں میں بھی برفیں یونہی پڑتی تھیں۔ ہاں ڈائجسٹ والے اپنی ”سہولتیں“ ساتھ لے جاتے ہوں تو پتا نہیں!۔
مستقل لنک
ہم ایستونیا سے آپکے غم میں برابر کے شریک ہیں۔۔۔
مستقل لنک
میں اور آپ تو ایک ہی برف کے سوار ہیں۔ گو کہ ایستونیا میں یہاں سے بھی زیادہ برف پڑتی ہو گی، میرا خیا ل ہے۔ لیکن ”گونگے دیاں رمزاں، گونکے دی ماں ای جانے“۔۔۔
مستقل لنک
ہاہا۔۔۔۔ کیا کہوں بس ہنسی آرہی ہے :ڈ
یہاں پر تو فقط کچھ حرف کہہ کر اپنی جان چھُڑا لی لیکن حقیقت میں کتنی گالیاں جناب کے منہ سے نکلی ہوں گی جو برفیلی موسم پر کم اور ایسے ڈائجسٹس پر زیادہ ہوں گی :ڈ
مستقل لنک
ہنس لو، ہنس لو۔۔۔۔
ویسے واقعی مجھے زیادہ غصہ برف پہ نہیں بلکہ پاکستان سے آنے والے ایسے جملوں پہ آتا ہے۔۔ خوب انجوائے کر رہے ہوگے سنو فالنگ کو، ہے ناں!
مستقل لنک
:ڈ
مستقل لنک
تین دن سے صبح اٹھتا ہوں۔
کافی پیتا ہوں۔
ناشتہ کرتا ہوں۔
گھر والی غراتی ہے۔
پارکنگ کے سامنے سے برف ہٹا کہ گاڑی باہر نکلے۔
گھنٹہ لگتا ہے،برف ہٹانے میں ۔۔
پھر کام بھی کرنا ہوتا ہے۔
دو قدم چلو تو لگتا ہے۔ہیوی ویٹ ٹریننگ کر رہا ہوں۔
پتہ ہی نہیں لگتا شام ہو جاتی ہے۔
اور بے سدھ ہو کر سوجاتا ہوں۔
رومان کرنے کی ہمت کس مائی کے لال میں ہے۔
حرام کی کمائی پاکستان سے کما کر سوئس بینک میں رکھی ہوئی ہو۔
تو شاید موسم رومانٹک لگے!!
ادھر تو سرما میں روٹیوں کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
مستقل لنک
حقیقت پہ مبنی جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کا بہت شکریہ۔
مستقل لنک
برف سے اٹی تصاویر دیکھ کر پاکستان میں بیٹھے ہم لوگ واقعی اس موسم کو بہت رومانوی تصور کرتے ہیں۔ مگر تم نے تو کچھ اور ہی حقیقت بتائی ہے۔ اگر ہارمونز بھی نہیں بنتے تو پھر میرے خیال میں اسی لیے لوگ شراب و کباب کا بہت اہتمام کرتے ہیں وہاں :ڈ
مستقل لنک
hum tu pakistan main he theethar rahay hain, tu apki azmat ko slam q na karain:)
مستقل لنک
سنا ہے میں نے بھی کہ اس بار بری ٹھنڈ پڑ رہی ہے وہاں۔
پاکستان میں سردی کا موسم اور ٹھٹھرنا مجھے ہمیشہ ہی پسند تھا۔۔۔ موسم کی شدت اپنوں کی چاہت اور سانجھ سے بڑھ نہیں سکتی کبھی۔