کچھ دن پہلے محترم راجہ افتخار صاحب حلال حرام کا کچھ تذکرہ کر رہے تھے۔ یورپ میں یہ تذکرہ ایسے ہے جیسے پاکستان میں آپ کسی سے یہ پوچھتے ہیں کہ بھائی کیا حال چال ہے، چائے لو گے یا ٹھنڈا؟ یعنی یہ سوال اتنا ہی اہم اور اتنا ہی تواتر سے پوچھا جاتا ہے۔ پاکستان میں تھے تو یہی سوچتے تھے کہ آخر اتنے پاکستانی رہ رہے ہیں، حلال گوشت مل جاتا ہوگا۔ یہاں آکر کچھ مختلف اعداد و شمار پتا چلے۔ پہلے دن ہی بھائی سے سوال کیا کہ مرغی اور گائے کا گوشت حلال ملتا ہے؟ نہیں۔ پاکستانیوں کی دوکانوں پر؟ بولا ضروری نہیں لیکن زیادہ تر! بہرحال پوچھنا بہتر ہوتا ہے۔
دوسرے دن ہم ایک ڈونر کی دوکان پہ گئے۔ ڈونر ترکی شوارمے کو کہہ سکتے ہیں آپ۔ اسی کا دور پار کا کزن ہے۔ عام طور پر ہر شہر میں آپ کو با آسانی ڈونر شاپس مل جائیں گی اور عموما ترکی ، عربی یا پاکستانیوں کی ہی ہوں گی۔ بقول بھائی کہ شہر کا مشہور ڈونر تھا، میں نے داخل ہوتے ہی پوچھا کہ حلال ہے۔ بھائی نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ ہاں یار، حلال ہے تو آئے ہیں ناں۔ میں نے ایک چک لگایا، پتا نہیں میرے ذہن میں کیا یا کون آیا کہ نگلنے کی بجائے اگل دیا اور کولا کا ٹن اٹھا کر باہر آ گیا۔ چونکہ تمام گوشت پراسیسڈ ہوتا ہے اور ایک مخصوص ذائقہ ہوتا ہے اسکا، جو کہ پہلی دفعہ اتنا اچھا نہیں لگتا (کم از کم مجھے نہیں پسند)۔ ایک مہینے تک میں بس ڈونر میں سے سلاد ہی کھاتا رہا۔
حلال گوشت چونکہ مہنگا اور مخصوص دکانوں سے ملتا ہے اسلئے پوچھنا پڑتا ہے۔ سب سے پہلے جو جملے سیکھے جرمن زبان کے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ” کیا یہ حلال ہے؟“ اور اس سوال کے جوابات کا مفہوم سمجھنا بھی ایک اہم تجربہ ہے۔ سب سے زیادہ دیا جانے والا جواب ” آلس حلال“ یعنی سب حلال ہے! یہ ذرا مشکوک نوعیت کا جواب ہے کیونکہ سب حلال نہیں ہے، اسلئے وضاحت کیلئے دوبارہ پوچھئے جواب آئے گا ” سور نہیں ملتا یہاں، سب حلال ہے“۔ کچھ لوگ یہاں بس کر دیتے ہیں، اور کچھ لوگ اگلا سوال کرتے ہیں ”کیا یہ گوشت حلال اور ذبیحہ ہے؟“ اب یہ مرحلہ ذرا مشکل ہے کیونکہ اگر تو دکاندار کی جرمن یا/اور مسلمانیت واجبی ہے تو اس کو بس ”آلس حلال“ تک ہی پتا ہوگا، اگر نہیں تو پھر وہ یہ کہے گا کہ میں بھی مسلمان ہوں یا یہ کہے گا کہ دکان کا مالک مسلمان ہے اور یہ گوشت حلال ہے۔ اب اس سے آگے آپ بس چپ کر کے کھا لیتے ہیں۔کچھ اس سے بھی آگے جاتے ہیں اور محض انہیں دکانوں سے لے کر کھاتے ہیں جہاں یا تو پاکستانی ہوں اور خود تسلی کر چکے ہوں یا پھر ہر ملنے والے سے پوچھ چکے ہوں کہ کیا یہ حلال ہے، مطلب،۔۔۔ کیا گوشت حلال ہے؟
ویسے یہاں ایسے مسلمانوں کی کمی نہیں جو کہتے ہیں کہ اگر سور نہیں تو حلال ہے۔ ایسوں کی بھی کمی نہیں جو گھر سے پیس کلومیٹر دور ہوں تو یہ کہتے ہیں کہ چونکہ ہم گھر سے دور ہیں اسلئے مجبوری میں میکڈونلڈ، یا دوسرے ریستوران سے کھانا کھا کر ”گزارا“ کر سکتے ہیں۔ ایسے بھی مل جاتے ہیں جو دکان میں داخل ہوتے ہی با آواز بلند پوچھتے ہیں: کیا یہ گوشت حلال ہے؟ اور ہاں میں جواب ملنے پر بخوشی آرڈر کرتے ہیں کہ تین بیف ڈونر کباب اور تین ٹھنڈی بیئر، پلیز!
اس تحریر پر 25 تبصرے کئے گئے ہیں
تبصرہ کیجئے
پچھلی تحریر: پی آئیے – پی جائیے
اگلی تحریر: وائمار، گوئٹے اور میں – حصہ1
مستقل لنک
یعنی آپ کا کہنے کا مطلب ہے کہ حلال سُن کر جلال میں آجاتے ہیں :ڈ
مستقل لنک
یہ تو وہی بات ہوئی کہ نشے میں ٹن مسافر ائیر ہوسٹس سے پوچھ رہا ہو۔
یہ حلال ہے نا؟
ویسے میں ایرانی اور ترکش ڈونر کی شاپ سے بالکل نہیں کھاتا کہ
کلُ حلالہ ہی کہتے ہیں خنزیر کو بھی حلال کہہ دیتے ہیں۔ وجہ ایک ہی ہے ترکی پھر بھی بہتر ہیں کسی ایرانی کوبھوک کے وقت خنزیر کھانے سے پرہیز کرتے نہیں دیکھا اگر پوچھ لیا جائے کہ بھائی خنزیر کیوں کھاتا ہے تو دارلحرب کا کہہ کر منہ موڑ کر ٹھونسنا شروع ہو جاتا ہے۔جرمن ترکش کا بھی مشاہدہ کچھ اسی طرح ہوا۔،،مچھلی سبزی کھا لیں یا تصدیق کرکے کافروں کی دکان سے کچھ بھی سبزی کھا لیں۔
مستقل لنک
گوشت کھانے کا حل یہ ہے کہ ہر کسی سے لے کے نہ کھایا جائے۔ بڑے شہروں میں سرٹیفائڈ حلال فروش مل ہی جاتے ہیں، جہاں سے لے آئیں اور خود پکا کر کھایا جائے۔ اپنے ہاتھ کا پکا کھا کر ایک دن آپ خود ہی سبزی خور بن جائیں گے۔ :ڈ
مستقل لنک
صحیح ترجمانی کی آپ نے بالخصوص آخری جملہ
مستقل لنک
آخری جملہ تو ایک لطیفے کی حیثیت رکھتا ہے یہاں۔ لیکن بہت سوں کا ذاتی تجربہ ہے۔
مستقل لنک
انگلینڈ کی طرح جرمنی میں پاکستانیوں کی قصائی کی دکانیں نہیں ہیں۔جرمنی میں بڑے شہروں میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت گوشت ترکیوں کی دکانوں سے لیتے ہیں۔بقول آپ کے محض اس خاطر کہ بیچنے والا مسلمان ہے تو شاید گوشت بھی حلال (اسلامی طریقے سے ذبحہ کیا گیا) ہوگا۔لیکن اس گوشت کی حلال ہونے کی حیثتیت بذات خود مشکوک ہے۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کوغالب یہ خیال اچھا ہے
آپ کے آخری جملے سے میں اتفاق کرتا ہوں، گوشت تو حلال لیں گے کیوں کہ اسلامی احکام کی تعمیل کرنی ہے لیکن باقی حرام کام شوق سے کریں گے۔ شراب شوق سے پئیں گے، ڈسکو بھی جائیں گے اور گوری چمڑی دیکھ کر رال بھی ٹپکائیں گے، چوری سے بھی باز نہیں آئیں گے۔
ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس نے داڑھی رکھی ہے، ہاتھ میں ہر وقت تسبیح ہوتی ہے، نمازبھی پڑھتا ہے، روزے بھی رکھتا ہے، گوشت بھی حلال کھاتا ہے۔ اس نے جھوٹے میڈیکل سرٹیفیکیٹ بنا کر آگے پیش کئے ہیں کہ میں بیماری کی وجہ سے کام کے لئے ان فٹ ہوں لہذا میں کام نہیں کرسکتا۔سرکاری فلاحی ادارہ اس کے گھر کا کرایہ ادا کرتا ہے اور اسے ضروریات زندگی کے لئے چھ سات سو یورو نقد دیتا ہے۔اس مرد مومن نے پھر اسی گھر میں دو کرایہ دار ڈال رکھے ہیں جن سے کرایے کی مد میں بھی پیسے بٹورتا ہے۔ جب اس سے اس تضاد کے بارے میں کہا جائے کہ بھائی یہ جو تم کر رہے ہو یہ حرام ہے، اس کا نہ آپ کا مذہب اجازت دیتا ہے نہ اس ملک کا قانون۔۔۔ تو آگے سے کہتا ہے کہ یہ گورے لوگ کافر ہیں میں ان کو اس طریقے سے نقصان پہنچا رہا ہوں۔
ایک اور نے ایک مہینے کی میڈیکل رخصت کے لئےاپنے ایمپلائیرکو جھوٹا میڈیکل سرٹیفیکیٹ محض اس لئے پیش کیا تاکہ وہ برکتوں سے فیضیاب ہونے کے لئے رمضان کا مہینہ گھر پر گزار سکے۔اور حلال گوشت کھا سکے۔
ہمیں گوشت حلال یا مردار، داڑھی چھوٹی یا بڑی، پائینچے اوپر یا نیچے، میں تو اسلام یاد آتا ہے لیکن اپنے معاملات میں اور اپنے اعمال میں اسلام کو کیوں بھول جاتے ہیں ؟؟؟
یہ کیسا دوغلا پن ہے ؟؟؟
مستقل لنک
اس دوغلے پن کی داستانیں تو جا بجا بکھری ہوئی ہیں۔ ہر دوسرا بندہ جو سوشل بینیفٹ لے رہا ہے، وہ یا تو جھوٹ بول رہا ہے یا پھر ویلےپن کی عادت کا شکار ہو چکا ہے۔ کسی دن اس پر بھی ہلکی سی روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ بڑا ہی عجیب چکر ہے یہ۔
مستقل لنک
بہت اچھا لکھا عمیر، اس مسئلے کا سب سے بہترین حل گاندھی صاحب والا ہے یعنی کہ ’کل وقتی سبزی خور‘ بن جائیں یہ مشکل تو بہت ہوگا لیکن حلال کے لیے اس سے بہترین حل نہیں ہے۔ گوشت کے چٹخارے کے لیے مچھلی استعمال کی جا سکتی ہے جیسا کہ برادر یاسر جاپانی نے مشورہ دیا۔
بہرحال، اب آیا ہوں تو ایک تصحیح کرتا چلوں کہ یہ ’ڈونر کباب‘ نہیں ہوتا بلکہ ’دونر کباب‘ ہوتا ہے کیونکہ ترکی میں ”ڈ“ کی آواز ہی نہیں ہوتی۔
مستقل لنک
فہد بھائی جرمن تو ڈال بول لیتے ہیں ناں۔ میں نے اس کا جرمن نام لکھا ہے۔ :پ ط:
تصحیح کا بہت شکریہ۔ باقی یہ گاندھی جی والا کام ذرا نہیں کافی مشکل ہے۔ تمام مسلمانوں میں ایک ہی چیز تو کامن ہے کہ وہ گوشت کے شوقین ہوتے ہیں۔۔۔!
مستقل لنک
آپ ٹینشن نہ لیں، ادھر کل حلال ہے، ویسے تو پاکستان میںبھی سب حلال ہے ہر وہ چیز جس پر آپ کا قبضہ ہے، اور ادھر پاکستان سے باہر چونکہ قبضہ کا رواج نہیں ادھر ہر وہ چیز حلال ہے جس پر آپ کی دسترس ہے۔ ہیںجی۔ ہر وہ مال
مستقل لنک
یعنی کہ آلس حلال ہے۔ پاکستان میں تو سب ہے ہی حلال، وہاں کی کیا بات ہے۔ بقول طارق عزیز:
گناہ ثواب دے وہم نے، کجھ وہ کرن نہ دتا
زندہ رہن دے سہم نے، چج نال مرن نہ دتا
مستقل لنک
یا آلس حلال
مستقل لنک
محترم یہ شعر کِس شاعر کا ہے؟
گناہ ثواب دے وہم نے، کجھ وی کرن نہ دتا
زندہ رہن دے سہم نے، چج نال مرن نہ دتا
مستقل لنک
طارق عزیز کا۔
مستقل لنک
بہت شکریہ:
اب تو اوپر شعر کے ساتھ بھی لکھا دکھائی دینے لگاا ہے۔
مستقل لنک
گویا ایسے ممالک میں گوشت خوری کا شوق بھی خاصی الجھن میں ڈال دیتا ہے۔
مستقل لنک
عمیر بھیا خوشی ہوئی اتنے عرصہ بعد ایک مثبت تحریر پڑھ کر۔ پھر مزید خوشی کی بات یہ کہ آپ نے احتیاط کرنی شروع کی اور اُمید ہے کہ مستقبل میں بھی ایسے ہی احتیاط کرتے رہیں گے اِس نازک صورتَ حال میں۔
جہاں تک بات ہے مسلمانوں کی لاپرواہی کی تو یہ افسوسناک بات کوئی نئی نہیں۔۔۔ رضوان خان بھیا نے بھی دُرست کہا کہ ہم اپنے مفاد کے وقت اسلام کو بھول جاتے ہیں اور اپنے عمل پر توجہ نہیں دیتے۔۔۔ بس یہی تو ہمارے وہ اعمال ہیں جسکی بنا پر آج پورا عالمِ اسلام تنکے کی مانند بے وزن ہوگیا اور ہم اللہ کے عزابات کا شکار ہونے لگے
مستقل لنک
بھیا جی ہماری تو ساری زندگی ہی احتیاط ہے۔ ہم تو جینے سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔۔۔ ل و ل ز
خیر بہت شکریہ کمنٹنے کا۔ مذہب کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کرنا ہماری عادت بن چکی ہے۔
مستقل لنک
دیکھنا زیادہ احتیاط بھی خطرناک ہوجاتی ہے اکثر۔۔۔
جی بالکل چاہئیے تو یہ تھا کہ مزہب کی مان کر چلتے لیکن مزہب سے اپنی منوانے لگے ہیں
مستقل لنک
حلال اور حرام کا چکر بس نہ پوچھیں، ایک ویب سائٹ دیکھی تھی اس کو پڑھنے کے بعد ہر چیز پر حرام کا گمان ہوتا ہے پر کیا کیا جائےکہ زندہ بھی رہنا ہے اور وہ بھی چٹخارے لے کر
مستقل لنک
ویب سائٹ کا لنک نہ فراہمنے کا بہت شکریہ۔ کبھی کبھی میں کہتا ہوں کہ نا آشنائی کا بھی مزہ لینا چاہیئے۔!
مستقل لنک
او بھائی ، پہلے یہ بتا کہ یہ بلاگ حلال ہے کہ نہیں ؟ ادھر اُدھر جانداروں کی تصاویر لگا رکھیں تو نے۔
لگتا ہے پردیس گئے چند ہی مہینے ہوئے جو صرف گوشت ہی پر پھنسا ہوا۔
ادھر ٹافی چیونگم میں بھی جیلی ٹن ہے۔ بولے تو سور کی ہڈیوں گا گودا
مچھلی بعض اوقات وائن میں تلی جاتی ہے۔ ہن کرو گل۔۔
ہم تو رًم میں تیار شدہ کیک بھی دیکھ چکے ہیں۔
اور بتاؤں یا کافی ہے ؟
مستقل لنک
بس تین ہی مہینے ہوئے۔
جیلاٹن سے بہت خوف آتا ہے۔ منحوس ہر مزے کی چیز میں ہوتی ہے۔ بعض اوقات والی مچھلی میں نہیں کھاتا۔ اکثر اوقات والی ویجیٹیبل آئل میں ہی تلتے ہیں ناں۔ کیک میں الکحل کا سنا ہے۔ اسی لئے تازہ نہیں لیتے، بلکہ کمپنی کا تیار شدہ انگریڈیئنٹس دیکھ کے کھا لیتے ہیں۔ اب پتا نہیں رم کو جرمن میں کیا کہتے ہیں؟ ویسے ایک کیک غیر معمولی طور پہ مزیدار تھا!!
میری چیونگم میں سویا لیسیتھین اور پتا نہیں کیا الا بلا ہے لیکن جیلاٹن نہیں لکھا ہوا۔
”سور سے ڈر نہیں لگتا صاحب، جیلاٹن سے لگتا ہے!“
مستقل لنک
بیرونِ ملک ایک طبقہ ایسا بھی دیکھا جن کو جب تک پتا نا ہو کہ یہ چیز حرام ہے تب تک ان کے لیے ہر شے حلال ہوتی ہے۔
مستقل لنک
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا!
ان کیلئے تو یہی کہنا بنتا ہے بس۔۔ ویسے نا آشنائی بھی ایک نعمت ہے۔