ایک اور سال تمام ہوا۔ 2012ء کی صبحِ اول کے سورج کے نام محسن نقوی کی ایک نظم جو سال 2010ء کی آمد پر پہلے بھی شیئر کی تھی۔ایک بار پھر۔
نئے سال کی صبحِ اول کے سورج!
میرے آنسوؤں کے شکستہ نگینے
میرے زخم در زخم بٹتے ہوئے دل کے
یاقوت ریزے
تری نذر کرنے کے قابل نہیں ہیں
مگر میں
(ادھورے سفر کا مسافر)
اجڑتی ہوئی آنکھ کی سب شعائیں
فِگار انگلیاں
اپنی بے مائیگی
اپنے ہونٹوں کے نیلے اُفق پہ سجائے
دُعا کر رہا ہوں
کہ تُو مسکرائے!
جہاں تک بھی تیری جواں روشنی کا
اُبلتا ہوا شوخ سیماب جائے
وہاں تک کوئی دل چٹخنے نہ پائے
کوئی آنکھ میلی نہ ہو، نہ کسی ہاتھ میں
حرفِ خیرات کا کوئی کشکول ہو!
کوئی چہرہ کٹے ضربِ افلاس سے
نہ مسافر کوئی
بے جہت جگنوؤں کا طلبگار ہو
کوئی اہلِ قلم
مدحِ طَبل و عَلم میں نہ اہلِ حَکم کا گنہگار ہو
کوئی دریُوزہ گر
کیوں پِھرے در بدر؟
صبحِ اول کے سورج!
دُعا ہے کہ تری حرارت کا خَالق
مرے گُنگ لفظوں
مرے سرد جذبوں کی یخ بستگی کو
کڑکتی ہوئی بجلیوں کا کوئی
ذائقہ بخش دے!
راہ گزاروں میں دم توڑتے ہوئے رہروؤں کو
سفر کا نیا حوصلہ بخش دے!
میری تاریک گلیوں کو جلتے چراغوں کا
پھر سے کوئی سِلسلہ بخش دے،
شہر والوں کو میری اَنا بخش دے
دُخترِ دشت کو دُودھیا کُہر کی اک رِدا بخش دے!
محسن نقویؔ
مستقل لنک
بہت خوب ۔۔ اچھی نظم ہے ۔۔ نیا سال مبارک ۔
مستقل لنک
خیر مبارک
مستقل لنک