ارے، آپ کو تو این سی اے (NCA) میں جانا چاہیئے تھا!
یہ وہ جملہ ہے جو کالج میں اور کالج کے بعد یونیورسٹی میں ہمیشہ مجھے سننے کو ملا۔ وجہ؟ وجہ آپ کو میرے بلاگ کو دیکھ کر بھی اندازہ ہو رہا ہو گا۔ اس کے بیک گراؤنڈ امیج میں موجود تمام اسکیچ میں نے بقلم خود بنائے ہیں۔ فی الحال جو ہیڈر لگا ہوا ہے، وہ بھی پنسل اور کاغذ پہ ہی بنا تھا۔ اور ۔۔۔۔ میں ایک کمپیوٹر انجینئر ہوں!
جس مضمون میں مجھے لطف آتا ہے وہ پروگرامنگ ہے، کیونکہ کہنے والے کہتے ہیں ”کوڈ از پوئٹری“ (code is poetry) یعنی اس میں بھی جمالیات انوالو ہو ہی جاتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ میرے گھر والوں نے مجھ پہ کسی قسم کی زبردستی کی تھی کہ مجھے کمپیوٹر انجینئر ہی بننا ہے بلکہ وہ تو اب بھی پوچھتے ہیں کہ ” یار، یہ کمپیوٹر انجینئر کرتا کیا ہے؟” یعنی نو آئیڈیا!
بس اسی نو آئیڈیے کی وجہ سے میں کمپیوٹر انجینئر ہوں۔ میٹرک میں بیالوجی پڑھی یعنی ڈاکٹر بننا تھا۔۔۔۔ انٹر میں ریاضی رکھ لی کیونکہ اس میں زیادہ نمبر آ گئے تھے۔۔۔۔ اور یونیورسٹی میں کمپیوٹر کیونکہ انٹری ٹیسٹ اچھا نہیں ہوا تھا! یہ ہے ہماری کیریئر پلاننگ۔
چلیں، مجھ سے تو پھر بچپن میں کوئی پوچھتا تھا کہ بڑے ہو کر کیا بننا ہے تو میں جھٹ کہہ دیا کرتا تھا کہ ”ڈاکٹر“ ۔۔۔ میرے ایک دوست کو یہ گلہ ہے کہ اس سے بچپن میں کبھی کسی نے پوچھا ہی نہیں کہ بیٹا بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ سب یہی کہتے تھے کہ ”اے کُجھ کرے گا!“ لیکن ہوا اس کے برعکس یعنی ”کُجھ“ وی نئیں کر سکا ۔( فی الحال) ۔۔
والدین سے کیا گلہ کریں، اگر وہ خود تعلیم یافتہ ہوتے یا کسی ایسے شعبے سے منسلک ہوتے تو ضرور راہنمائی کرتے۔ جو انہیں پتا تھا وہ انہوں نے بتایا اور اس کے علاوہ سب سے اہم کام یعنی سرمایہ مہیا کیا۔ سکول میں نمبر لینے سے فرصت ملتی تو اور کسی طرف دھیان جاتا۔ جو چار مضمون ہوتے ہیں ان میں سے 3 لازمی اور ایک میں کیا چوائس ہونی ہے۔۔۔۔ 500 بچے بیالوجی پڑھ کے میٹرک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، 400 رہ جاتے ہیں اور 100 میں سے 50 کسی نہ کسی طرح انٹر میں بھی بیالوجی رکھ لیتے ہیں۔ باقی کے پچاس میں سے پچیس اضافی میتھس کا پرچہ دے کر پری انجینئرنگ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اور رہ گئے آخری پچیس، وہ ’کجھ‘ بھی نہیں کر پاتے۔
یہ تو بات تھی سکول کی۔ کالج میں اس سے بھی زیادہ ’ب پلاننگ‘ منتظر ہے، جس طرف کی ہوا چلی، سب اسی طرف لڑھک گئے۔ 3 ایک کالج میں جا رہے تھے، ساتھ میں مزید 4 کو بھی گھسیٹ لیا۔ والدین بیچارے بھی کیا کریں، ان کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کو بھی نہیں معلوم کے کیا پڑھنا چاہیئے اور کیوں پڑھنا چاہیئے۔
کیریئر پلاننگ کے بارے میں لکھے گئے اس مضمون کے مطابق 50 فیصد بچے کا رجحان، 40 فیصد ملکی حالات و ضروریات اور 10 فیصد والدین کی خواہش کیریئر کے فیصلوں میں شامل ہونی چاہئیں۔ یہاں اس قسم کی تمام تحقیقیں دھری کی دھری ہی چھوڑ دی جاتی ہیں۔
اس مضمون کا بنیادہ مقصد جلی کٹی سنانا نہیں بلکہ یہ احساس ہے کہ زندگی کے نہایت اہم فیصلے کو جتنی اہمیت دی جاتی ہے وہ کم نہیں بلکہ ہے ہی نہیں۔
” جو مرضی پڑھ لو!“
اس میں نمبر نہیں آتے، سوچ لو!
سائینس ہی رکھنی چاہیئے۔ آرٹس تو نالائق پڑھتے ہیں۔
اس کا سکوپ ہے، اُس کا کوئی سکوپ نہیں۔
اس طرح کے جملوں سے کیا حوصلہ ملنا ہے بچوں کو۔ ان کو تھوڑا وقت دیں۔ ان کے سامنے آپشن رکھیں، تمام ضروری باتیں پوچھ کر بتائیں۔ مشورہ کریں۔
اس سلسلے میں تین لوگ ہیں جو اہم کردار ادا کر سکتے ہیں:
1۔ والدین
2۔ اساتذہ / ادارے
3۔ آپ!
باقی دو کا آپ کو پتا ہے، لیکن آپ کیا کر سکتے ہیں ان بچوں اور بڑوں کی مدد کیلئے جو ان مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ آپ کسی بھی فیلڈ یا شعبے میں ہیں تو اس کے بارے میں اور اس سے ملتے جلتے شعبوں کے بارے میں اپنے قریبی دوستوں اور عزیزوں سے پوچھ کر معلومات دے سکتے ہیں بچوں کو۔ ان کی کیرئر کونسلنگ کر سکتے ہیں۔ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اپنے محلے میں یا اگر ممکن ہو تو کسی سکول میں جا کر بچوں کے ساتھ ایک سیشن رکھ سکتے ہیں ان معاملات کی طرف توجہ دلانے کیلئے، ان کے اساتذہ کے ساتھ مل کر اس بارے میں بات کر سکتے ہیں۔
آخر میں میں اس کُجھ نہ بن سکنے والے دوست کا شکریہ ادا کروں گا کہ یہ تحریر میں نے اس کے کہنے پہ ہی لکھی ہے ۔ اس کاخواب ہے کہ وہ دوسروں کو کچھ بنتا ہوا دیکھے۔ اور میرا یقین ہے کہ آج نہیں تو کل وہ کجھ نہ کجھ ضرور کر لےگا اور ضرور کامیاب ہوگا۔
مستقل لنک
مجھے تو یہ پڑھ کر عجیب محسوس ہو رہا ہے کہ آپ نے میٹرک میں صرف بیالوجی پڑھی۔۔۔
ہم نے تو میٹرک میں کیمسٹری ، بیالوجی ، فزکس ، میتھ اور سونے پہ سہاگہ انگریزی بھی کورس میں لازمی تھی۔۔۔کیا کراچی کا نصاب مختلف ہے؟
کسی ایک مضمون میں بچہ یکتا نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔۔لیکن جو لائق تھے وہ سب مضامین میں لائق ہوتے تھے۔
مستقل لنک
میں کراچی سے نہیں ہوں، لالہ موسیٰ ، ضلع گجرات سے ہوں۔ یہاں بھی یہ سب مضامین ہوتے ہیں لیکن چوائس صرف بیالوجی اور کمپیوٹر میں ہوتی ہے۔ اور جب میں نے میٹرک کیا اس وقت کمپیوٹر سائینس زیادہ عام نہیں تھا۔ باقی آرٹس تو نا لائق پڑھتے ہیں ناں!
مستقل لنک
ڈاکٹر بن جاو یا پھر انجینیئر۔۔۔آرٹس تو نالائق لوگ پڑھتے ہیں۔
میرا سکول کالج کا ٹائم تو یہ سننے میں ہی گذرا۔ عجیب سلسلہ ہو تا ہے یہ کیرئیر بنانے کا۔
اچھا یہ اردو ڈائجسٹ والا لنک کھل نہیں رہا۔http دو دفعہ آنے کی وجہ سے۔
مستقل لنک
جی بالکل ایسا ہی ہے۔ لنک درست کرتا ہوں ابھی۔
مستقل لنک
بہت زبردست تحریر ہے۔
جب ہم میٹرک میں تھے تب بھی کمپیوٹر عام نہیں تھا۔ خیر کالج میں زبردستی حیاتیات (بیالوجی) رہا دی گئی، ہم نے دس دن بعد تبدیلی کرتے ہوئے ریاضی اختیار کر لی کیونکہ جب دوسروں کو ریاضی پڑھتے دیکھتا تھا تو دل کو کچھ ہوتا تھا کیونکہ تب بھی اور آج تک بھی میٹرک میں ہم سے ”زیادہ“ نمبر ریاضی میں کسی نے نہیں لئے۔
خیر کیریئر کونسلنگ بہت ضروری اور اہم ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ سب نہ ہونے کی وجہ سے ریس کے گھوڑے ریڑھی کھینچ رہے ہیں اور گدھے گھوڑوں کی جگہ ریس دوڑ رہے ہیں۔
باقی آرٹس تو واقعی نالائق طالب علم پڑھتے ہیں جبھی تو ہماری معاشرت و سیاست کا جلوس نکل رہا ہے۔
مستقل لنک
آخری بات تو آپ نے صد فیصد درست فرمائی ہے۔ اگلا جلوس کوئٹہ میں!
مستقل لنک
ریس کے گھوڑے ریڑھی کھینچ رہے ہیں اور گدھے گھوڑوں کی جگہ ریس دوڑ رہے ہیں۔۔۔۔
ز بردست بات کہی آپ نے بلال۔
مستقل لنک
بھیا آپکے کہنے پر بلاگ کے بیک گراونڈ میں لگی مورتوں کو دیکھ رہا ہوں۔ اور سوچ رہا ہوں۔۔۔۔ آپ کو تو این سی اے میں جانا چاہئیے تھا !!!
ویسے عمیر بھیا تحریر بہت اچھے عنوان پر اور نہایت خوب لکھی ہے۔ اَس معاملے میں میرے دِل میں بھی بہت سی بڑھاس ہے جسکو آج ایک پوسٹ کی صورت میں نکالنے کا جی چاہنے لگا ہے
مستقل لنک
نکالو جہ نکالو۔۔۔ لیکن صرف بھڑاس نہیں نکالنی۔ اس بارے میں لوگوں کو گائیڈ بھی کریں۔ پسندنے کا شکریہ
مستقل لنک
یہ بندہ ضرور کچھ کرے گا اور کیا کچھ بھی نہیں
ایسا لگ رہا ہے آپکا وہ دوست میں ہوں
مستقل لنک
اس مضمون میں استعمال تمام ‘دوست’ فرضی ہیں اور کسی قسم کی مماثلت کا ذمہ دار ادارہ نہ ہو گا۔۔۔!
مستقل لنک
اس مےںکچھ خاص نہےں ہے اور بہت کےا جاسکتاتھا۔
مستقل لنک
بہت خوب، مزا آگیا یہ تحریر پڑھ کے!!
میٹرک میںبائیو تھی؛ کمپیوٹر کی چوائس تھی مگرکمپیوٹر ٹیچر کوئی نہیںتھا؛ شوق کمپیوٹر کا تھا مگر میٹرک میںبائیو سو ایف ایس سی میںبھی بائیو۔۔۔
میڈیکل کالج میںداخلہ نہ ملا، بسس اب تو کمپیوٹر ہی پڑھنا ہے ۔۔۔
اب سوچتا ہوں پڑھائی جوئے کے سٹائل میںکی ہے۔۔۔ (:
مستقل لنک
بہت زبر دست تحریر ہے۔
مستقل لنک
بہت اعلیٰ مضمون۔۔ ویسے ایک اور چیز کا اضافہ کیا جا سکتا تھا کہ کچھ بچے ڈاکٹر بننے کے شوق میں میٹرک میں بیالوجی رکھتے ہیں، لیکن پہلے ہی مہینے بیالوجی کے ٹیچر یہ کہ کر انہیں کلاس سے نکال دیتے ہیں کہ وہ بیالوجی نہیں پڑھ سکتے، اور پھر ان بچوں کو ‘آئی سی ایس ‘ کی کلاس میں بھیج دیا جاتا ہے۔ (یعنی کہ بیالوجی سے شارٹ لسٹ کر دیا جاتا ہے) ط:
مستقل لنک
سر جی، بہت شکریہ پسند کرنے کا۔
اب سب اپنی اپنی داستان بتا رہے ہیں۔۔۔ بیالوجی پڑھ لیتے تو انسانوں کے ڈاکٹر بن جاتے ، اب کمپیوٹر سائینس کے ہیں۔۔!
مستقل لنک
میرے بھائی عمیر لطیف نے بڑے اچھے موضوع کی جانب توجہ دلائی ہے۔ میں بھی ایک انجینیئر ہوں اور تدریس کے شعبہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں اپنے طلبہ کو ہمیشہ یہی باور کروتا ہوں ک نالائق اور لائق جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ یہاں پر والدین کا قصور زیادہ بنتا ہے۔ جاہے وہ پڑہے لکھے نہیں بھی ہیں مگر انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر کسی استاد سے مشورہ زرور کرنا چاہیے۔ اگر وہ خود پرہے لکھے نہیںہیں تو۔ اللہ کے فضل و کرم سے آج وہ دن بھی آگیا جب میں بھی اپنے طلبہ کی کونسلگ کرتا ہوں۔ جہاں تک ممکن ہو سکے۔ تا کہ کو ئی کل کو یہ نہ کہ سکے کہ کسی نےکچھ بتا یا ہی نہیں کہ کیا بننا ہے۔ اور ان کے زہن سے یہ نالایئق اور لائق کے تفرقے کہ ختم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اور ساتھ یہ بھی تصیحت کرتا ہوں کہ زندگی صرف اچھے نمبر حاصل کرنے کا نام نہیں۔ یہ اس سے بہت بڑھ کر ہے۔
مستقل لنک
ہم تو شروع سے ہی کہتے آئے ہیں۔۔ یہ نمبر شمبر کچھ نہیں ہوتے۔۔ ط:
بہت شکریہ تبصرہ کرنے کا۔
مستقل لنک
زندگی سے یھی گلا ھے مجھے
کوی راھنئما نھی ملا ھے مجھے
plz jis sy jitna ho sakay wo is maamlay main bachon ko gauid karain, main nai chahti k kal ko koi zindgi say ya gila kray
مستقل لنک
یہ ہمارا اور آپ کا، سب کا کام ہے۔
مستقل لنک
عمیر بهائی
خوبصورت باتیں لکهی ہیں آب بیتی
بهی اور راہنمائ بهی