اب تو میں یہ کہہ دیتا ہوں کہ جی مجھے تو بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ لیکن یہ تو مجھے بھی نہیں پتا کہ مجھے کب مطالعہ کا شوق ہوا۔ اسکول کے زمانے میں میں نصابی سرگرمیوں میں کافی اچھا تھا اس لئے اس زمانے میں انعام میں ملنے والی کتب ہی شاید میری پہلی غیر نصابی کتب تھیں۔ مجھے ابھی بھی کتابوں کا ایک سیٹ یاد ہے جو مجھے شاید پہلی یا دوسری جماعت میں ملا تھا جس میں سے ایک کتاب کا نام ’ جنوبی امریکہ کے پرندے‘ اور ایک کا نام شاید ’افریقہ کے جانور‘ تھا۔ ان دونوں کتابوں میں رنگ برنگی تصاویر کے ساتھ بہت سے جانداروں کی معلومات تھیں۔ جن کے بارے میں مجھے اب بھی بہت سی باتیں یاد ہیں۔ ڈیجیٹل انگریزی ڈکشنریوں میں A سے لکھا ہوا پہلا لفظ Aardvark یعنی اردوارک میں اسی کتاب میں پڑھ چکا تھا، جبکہ اکثر میرے ساتھی اس کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔ اس کے بعد میں نے اپنے بڑے بہن بھائیوں کی نصابی کتب کو اپنی غیر نصابی کتب بنایا اور ان کی اسلامیات، تاریخ اور اردو، انگریزی کی کتب شوق سے پڑھتا تھا۔
اس کے بعد جاسوسی ڈائجسٹ یا عمران سیریز جو کہ میرے بھائی کا شوق تھے، ان میں تھوڑا وقت گزارا۔ گھر میں سبھی بھائی کو ان سے منع کرتے تھے لیکن وہ کبھی باز نہ آیا (بہت اچھا کیا!) اور میں ان ناولوں میں سے چھوٹے چھوٹے ایک دو پڑھ لیا کرتا تھا۔ انسپکٹر جمشید سیریز مجھے زیادہ اچھی لگی تھی۔ میں اور میرا دوست جب بھی کوئی انگریزی تھرلر دیکھتے ہیں تو یہ ضرور کہتے ہیں کہ یار ہمارے عمران سیریز بھی تو اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ ان پہ بھی فلمیں بننی چاہئیں۔ (اور پھر اس بات پہ خاموش ہو جاتے ہیں کہ یار! فلمیں بننے تو دو پہلے!)
ایک دور وہ بھی آیا کہ گھر میں آنے والے زنانہ ڈائجسٹ پڑھنے کا چسکا لگا۔ سب سے چھپ چھپ کے بہت پڑھے۔ اب بھی کبھی کبھار نظر پڑ جائے تو ایک دو صفحات دیکھ ہی لیتا ہوں۔ میرے کمرے میں ایک دو تو ضرور ہی پڑے ہوتے ہیں کسی نہ کسی کونے میں، نیند نہ آنے کی صورت میں رجوع کر لیتا ہوں!! اسی دور میں پیرِ کاملﷺ، جو چلے تو جاں سے گزر گئے، دربارِ دل، اور اسی طرح کے مشہور مشہور ناول پڑھے۔ فارغ ہوں تو اپنے دوستوں سے لیکر اس طرح کے ناول پڑھ لیتا ہوں اب بھی۔
میٹرک میں امتیازی نمبروں پر ہمارے اسکول (آرمی پبلک اسکول) کے پیٹرن کی جانب سے کتابوں کا تحفہ ملا۔ ان میں شہاب نامہ، آکسفورڈ پریس کا ایک ایٹلس(نقشہ)، ایک پاکٹ انگلش ڈکشنری، ایک تھیسارس، اور ایک انگریزی کی کتاب جس کا نام (بد قسمتی سے) فی الحال مجھے یاد نہیں، شامل تھیں۔ یہ میری ذاتی کتب میں اچھا اضافہ ثابت ہوئیں۔ کتابیں خریدنے کا مجھے بہت شوق تھا، لیکن کبھی پورا نہ ہوا۔ اس طرف پیسے لگانے کا کوئی رواج یا دستور ہمارے گھر میں موجود نہ تھا۔ چھوٹے شہروں سے ویسے بھی کتابیں زیادہ مہنگی اور محدود ملتی ہیں۔ جب میں لاہور جی سی یو میں پڑھنے کیلئے آیا تو جی سی لائبریری دیکھ کر بہت متاثر ہوتا تھا۔ ایک تو مجھے ویسے بھی پرانی عمارتوں سے حد درجہ لگاؤ ہے اور لاہور میں اس لگاؤ کو خوب ہوا لگی۔ میں اکثر فارغ(جو کہ میں ہمیشہ ہی ہوتا تھا) اوقات میں ہاسٹل سے نکل جاتا اور گلیوں اور سڑکوں پہ پھرتا اور میری گردن چاروں طرف موجود پرانی عمارتوں کو دیکھنے کیلئے ریڈار کی مانند گھومتی رہتی، اور یہ عادت ابھی بھی باقی ہے۔ ہاں، بات لائیبریری کی ہو رہی تھی، تو میں نے اس لائیبریری میں کافی وقت گزارا اور اردو کی کئی کتابیں پڑھیں۔ انگریزی کتب کا شوق کچھ خاص نہیں تھا۔ کتابیں خریدنے کی خواہش بھی لاہور میں ہی پوری کی، اور ہر اتوار انار کلی کے ارد گرد فٹ پاتھ پہ لگنے والے ذخیرہ کتب سے کافی کچھ خریدا۔ جو کہ میری ذاتی بک شیلف کی صورت میں موجود ہیں۔ وہاں ہر طرح کی اور عجیب عجیب قسم کی کتب ہوتی تھیں، ان میں سے کوئی کام کی نکالنا مشکل تو ہوتا تھا لیکن نا ممکن نہیں۔ اور میرے پاس تو ٹائم ہی ٹائم ہوتا تھا۔ نئی کتابیں خریدنے کا شوق اب بھی شوق ہی کی صورت میں باقی ہے۔ نئی کتابیں میں نے بہت کم خریدی ہیں۔ زیادہ تر کسی نہ کسی کی دی ہوئی یا میرے بھائیوں میں سے کسی کی لائی ہوئی ہیں۔
اپنی ذاتی لائبریری کا شوق ہمیشہ سے ہی میرے دل میں ہے لیکن ابھی تک پورا نہیں ہو سکا۔ ویسے اگر گھر میں دیکھوں تو کافی کتب مل جائیں گی اپنی (ہونے والی!) لائبریری کیلئے، انشا اللہ جلد ہی میں ایک باقاعدہ بک شیلف جس میں ترتیب سے اور حفاظت سے کتابیں رکھی ہوں گی، ضرور بناؤں گا۔ اور پھر اس کی تصاویر یہاں چپکاؤں گا۔
اس تحریر پر 16 تبصرے کئے گئے ہیں
تبصرہ کیجئے
پچھلی تحریر: فیچرڈ پوسٹ: کثیر الشخصیاتی عارضہ
اگلی تحریر: عمران جمشید کے کیمرے سے
مستقل لنک
مستقل لنک
یار عمیر
تم سب ہفتہ کتاب دوستی منا رہے ہو۔ یہ لفظ پاکستان میں جچتا نہیں ہے۔ میں تو پچھلے کئی دنوں سے ہفتہ کتاب بیزاری منا رہا ہوں۔
ویسے تم نے بھی تصدیق کی جی سی کے کتاب بیزاری کے ماحول کی۔ لوگ اردو کتابیں ، اسلام وغیرہ ہی پڑھتے تھے ادھر۔
بہرحال ابھی میں نے دوسری قسط لکھنی ہے۔ باقی بہت کچھ اس میں بیان کروں گا۔
مستقل لنک
اچھا! مجھے نہیں پتا تھا کہ اردو اور اسلامی کتابیں پڑھنے کو ’کتاب بیزاری‘ کہتے ہیں۔۔۔۔۔ میں تو اس رویے کو ’اسلام یا پاکستان بیزاری‘ کہتا ہوں۔۔۔۔۔۔!
آپ اسے شروع سے ہی کتاب بینی کا ماحول نہ ملنے کی پیداوار ضرور کہہ سکتے ہیں۔ اور ضروری نہیں کہ سب لوگ آپ کے پسندیدہ ادب کو پڑھتے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی اگلی قسط کا بھی انتظار رہے گا۔
مستقل لنک
تو پھر مجھ سے بڑے “اسلام بیزار” اور “پاکستان بیزار” تو وہ ہوئے جنہوں نے کالج میں تین لائبریاں بنائیں لیکن اردو کتابوںاور اسلامی کتابوں کے لئے محض ایک دو فلور ہی مختص کردیے۔
ویسے لائبریری میں عمران سیریز ، اشتیاق احمد “ادب” اور ڈائجسٹ وغیرہ کہاں پڑے تھے؟
مستقل لنک
“ویسے تم نے بھی تصدیق کی جی سی کے کتاب بیزاری کے ماحول کی۔ لوگ اردو کتابیں ، اسلام وغیرہ ہی پڑھتے تھے ادھر۔”
میں نے یہ کہا کہ اردو اور اسلامی کتب پڑھنا کتاب بیزاری تو نہیں ہے نا۔۔۔۔ ہاں، مضامین میں وسعت کی کمی، عدم توجہی ، غیر مناسب ماحول، محدود سوچ۔۔۔۔۔ یہ سب ہو سکتا ہے۔ جب لائبریری کا منہ ہی 20 سال کی عمر میں دیکھنا نصیب ہو تو اور کیا کریں۔۔۔۔۔۔ منٹو رامہ پڑھ لیتے ہیں یہی کیا کم ہے۔۔۔۔ 😉
میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں۔ آپ بند دماغوں کی صرف ایک یا دو کھڑکیاں کھولنے کی بات کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ تا کہ عوام زیادہ سمجھدار نہ ہو جائے! p:
لائبریری میں تو جی ڈی سوندھی کے زمانے کی کتابیں ہیں ویسے بھی۔ یہ والا “ادب” باہر فٹ پاتھ سے ملتا تھا۔۔۔
مستقل لنک
اچھی داستان سنائی
یار کوئی ایسا نہیںہے جو مشہور افسانہ نگاروں کا نام لے کر ہمارے اوپر رعب جھاڑے۔
ہم تو عامیانہ ادب کے قاری ٹھہرے کوئی تو خالص ادبی ذہن والا بھی ہونا چاہئے
میں نے بھی خالص ادب پڑھا ہے لیکن ان پر بات کرنا ایسا ہے جیسے کوئی نوالہ زبردستی منہ میںٹھونس رہا ہو۔
مستقل لنک
خالص ادب کے بارے میں میرا بھی یہی خیال ہے۔۔۔
عثمان نے تو ویسے ہی ہم سب کو کتاب بیزار بنا دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔
مستقل لنک
انسپکٹر جمشید سیریز سے ہمارا بھی کافی تعلق رہا ہے۔ دراصل انسپکٹر جمشید سے زیادہ انکے مصنف اشتیاق احمد صاحب سے محبت تھی۔ سب سے زیادہ ناولز لکھنے کا اعزاز اور نہ جانے اور کتنے اعزاز۔۔۔ لیکن اُنکو وہ مقام نہیں ملا جو ملنا چاہئیے تھا۔۔۔ ہاں یہ ہمارے ملک میں کوئی نئی بات نہیں۔۔۔ اب بیچارے اپنی زندگی کے بچے کُچے ایام کو گزار رہے ہیں اور ساتھ ایک رسالہ کی مدیری بھی۔۔۔ نہایت مخلص انسان ہیں۔ میرے لئے بہت خوشی کی بات تھی کہ اِک دِن میں نے اُنہیں ایک خط لکھا اور جوابآ اُنہوں نے مجھے کال کی۔۔۔ ابھی تک یقین نہیں آتا۔۔۔ خیر یہ تو تھا تبصرہ آپکی تحریر پر لیکن کر ڈالا اشتیاق احمد صاحب پر۔۔۔
آپ اپنی لائیبریری ضرور بنائیے گا۔۔
مستقل لنک
اشتیاق احمد صاحب کا لکھا ایک خط میرے دوست کے پاس بھی ہے۔۔۔۔۔
انشا اللہ
مستقل لنک
عمیر بھیا::میرے پاس بھی اُنکا ایک خط ہے۔۔۔۔
مستقل لنک
السلام علیکم
دلچسپ لکھا ہے ۔ اردوارک anteater کو کہا جاتا ہے یہ مجھے بھی نہیں معلوم تھا آپ کی تحریر پڑھنے سے پہلے تک ۔ آپ کی لائبریری دیکھنے کا انتظار رہے گا ۔
مستقل لنک
شکریہ۔۔
لائیبریری دیکھنے کا مجھے بھی انتظار رہے گا۔۔۔۔
مستقل لنک
لابریری بنانے کا منصوجہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، سن 2004 کا ہے۔ اب تک پس نہیں ہو سکا۔ خیر اپنے اچھے تجربات کا ایک اچھی تحریر کی صورت میں بتانے پر شکریہ۔
مجھے واقعی آج پتہ چلا کہ اسلام اور اردو کتاب بیزاری کے زمرے میں آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔:(
مستقل لنک
مہربانی جی مہربانی۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے بھی تبصرہ کیا۔۔۔۔! ویسے اپنے بلاگ کا لنک تو ڈال جاتے نام کے ساتھ۔۔۔۔۔
ایک بات تو پکی ہے، تم صرف تبھی تبسرہ کرو گے جب تم اپنے بلاگ پہ کچھ لکھو گے۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادتی ہے یہ!!
مستقل لنک
عمیر اچھے تجربات آپ نے بیان کیے ہیں۔۔ اشتیاق احمد کے ناولوں کا ایک اثر تو یہ ہوتا ہے کہ ابتدائی عمر سے ضخیم کتابوں کا خوف ختم کرنے میں کارآمد رہتی ہیں لیکن تصوراتی دنیا کی کہانیوں کا اپنا ایک لطف ہے اور شاید ذہنی ارتقاءمیں ان کی اہمیت بھی ہو۔۔ ذاتی کتب خانہ اچھا خیال ہے؛ کتابوں کی نمائش شاید کچھ لوگ اچھا نا سمجھیں مگر ذاتی طور پر مجھے پسند ہے۔
مستقل لنک