کثیر الشخصیاتی عارضہ یعنی Multiple Personality Disorder کے متعلق شاید آپ نے سنا ہو، کم از کم وہ خواتین و حضرات جو ہالی وڈ کی فلموں کا ذوق رکھتے ہیں وہ ضرور واقف ہوں گے کیونکہ کئی فلمیں اس موضوع پر بنائی جا چکی ہیں۔ جیسا کہ یہ والی اور یہ والی، اور اب یہ والی بھی آ گئی ہے۔
یہ ایک ذہنی اور نفسیاتی بیماری ہے اور جیسا کہ نام سے ہی حاضر ہے کہ اس میں انسان کی شخصیت مختلف حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور وہ ایک شخصیت کی بجائے کئی شخصیات کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ شخصیات ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہوتی ہیں اور انسان کسی ایک یا زیادہ شخصیات کے اثر میں رہتا ہے۔ ان مختلف شخصیات کو انسان کا ‘ آلٹر’ (Alter) یعنی ‘متبادل’ کہا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف، اگر دیکھا جائے تو ہم بحیثیت قوم اصل میں اسی عارضے کا شکار ہیں۔ ہماری شناخت بھی کئی حصوں میں بٹ چکی ہے۔ کبھی ہم مسلمان ہوتے ہیں، کبھی پاکستانی، کبھی سندھی، پنجابی، بلوچی یا پٹھان ہوتے ہیں، کبھی شدت پسندی غالب آ جاتی ہے تو کبھی روشن خیالی، اور بعض اوقات ہم کچھ بھی نہیں ہوتے!
کچھ دن پہلے میں نے ایک انگریزی ناول نگار سڈنی شیلڈن کا ایک ناول پڑھا جو کہ اسی موضوع پر لکھا گیا ہے۔ اس ناول کی ہیروئن بھی کثیرالشخصیاتی عارضے میں مبتلا ہوتی ہے اور کئی متصادم شخصیات کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ ان منفی شخصیات کے زیرِ اثر وہ کئی سنگین جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتی ہے۔ اس کے علاج کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ان تمام ‘متبادلوں’ کو آمنے سامنے لایا جائے اور ان کے درمیان مباحثہ ہو اور ان سب میں ہم آہنگی پیدا کی جائے تا کہ کئی شدت پسند شخصیات کی بجائے ایک متوازن اور مکمل شخصیت کا ظہور ہو۔
یہی ہمارا بھی علاج ہے۔
یہ تحریر میں نے 8 ستمبر 2009ء کو لکھی تھی۔ آج پرانے محفوظات دیکھتے ہوئی نظر سے گزری تو سوچا کہ دوبارہ چھاپنی چاہیئے۔ اصل ربط یہ رہا، ویسے اوپر مکمل تحریر من و عن لکھ دی ہے۔
مستقل لنک
مستقل لنک
تو کا مطلب ھے۔سائیں جی قابل علاج ہیں؟لیکن یہ علاج کونسا معالج کرے گا؟
مستقل لنک
تو اس کا مطلب ہے
مستقل لنک
درست تجزیہ فرمایا
سڈنی شیلڈن کے ذکرسے ایک ناول یاد آگیا۔
جنون کے نام سے اقبال پاریکھ صاحب نے ترجمہ کیا تھا
اگر آن لائن مل سکے تو کیا کہنے
مستقل لنک
فلموں کا لنک دے کر اچھا کیا۔
ریویو پڑھوں گا۔ اچھی لگی تو دیکھوں گا۔
اور اگر یہ پوسٹ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات پر ہے تو۔۔۔
سانوں کی۔
مستقل لنک
::جاپانی:: ناول کی رو سے تو تفسیاتی ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہو گا۔۔ لیکن پہلے یہ تسلی کر لیں کہ ڈاکٹر اس عارضے میں مبتلا نہ ہو۔
::شازل:: کیا پتا کسی دوکان یا لائبریری میں مل جائے۔۔ دیکھوں گا۔ شکریہ
::عثمان:: اگر آپ ’دستخط‘ نہ لکھتے نیچے تو میں نے آپکے خلاف منافقت کا رولا ڈال دینا تھا۔ D: