اس تحریر پر 16 تبصرے کئے گئے ہیں


  1. ہم تو بہت پہلے پڑھے چکے تھے۔لیکن کچھ حیرت نہیں ہوئی تھی۔ ہمیں پہلے ہی اندازہ تھا کہ ایسا ہی ھو تا ھے۔ایسے کاموں میں۔بحرحال اس سے ایک بات کا پتہ چلا کہ ہمارے اندازے پکے ہوتے ہیں اور ہم بڑی پہنچی ہوئی چیز ہیں۔

    Reply
    1. عین لام میم

      یہ تحریر کے شروع والا بچہ جمورا آپ ہی تو ہیں۔۔۔۔۔ :)

      Reply

  2. میں نے بھی کچھ عرصہ پہلے پڑھا تھا اور ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ اس پہ لکھوں کہ آپ نے لکھ دیا۔ آپکا کیا خیال ہے اس وقت یہ چیز کیوں منظر عام پہ آئ۔

    Reply
    1. عین لام میم

      شکریہ عنیقہ
      وجوہات تو اللہ ہی جانتا ہے یا لیک کرنے والے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو اس میں بھی ’ڈو مور‘ کی بو آ رہی ہے۔۔۔۔ انہیں جو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اس سے بر عکس، ہمیں یہ ضرور کرنا ہو گا۔۔۔۔۔۔ باقی حکومتاں دی گل تے حکومتاں ای جاندیاں نے جی!

      Reply

  3. ہممم۔۔۔ اچھا کیا جو آپنے بلاگ کی نظر ہی خبر کر دی۔۔۔ ویسے یہ خبر پڑھ کر مجھے بھی کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی۔۔۔ اپنے معاشرے میں پہلے ہی ایسی باتیں کافی مرتبہ سننے کو مل چکی ہیں۔
    عمیر بھیا میرا بلاگ بھی اپنے روابط میں شامل کرنے کا شکریہ۔ میں نے ابھی دیکھا۔

    Reply
    1. عین لام میم

      جی اس میں شکریے کی کیا بات ہے۔ یہ تو جی ’ورتن‘ ہوتی ہے!!

      Reply

  4. اچھا کيا آپ اسے بلاگستان پر لے آئے ۔ ميں نے وکی ليکس کی ويب سائٹ اتفاق سے 25 جولائی کو ہی پڑھی تھی ۔ ايسی خفيہ معلومات بعض اوقات کوئی اہلکار بيچ ديتا ہے ليکن عام طور پر امريکی حکومت خود اسے ظاہر کرتی ہے جس کے دو مقاصد ہوتے ہيں
    ايک ۔ کسی حکومت کو دباؤ ميں لانا يا اس کے خلاف کاروائی کا جواز پيدا کرنا
    دو ۔ مخالفين کا ردِ عمل ديکھنا کہ مزيد ويسی يا سخت کاروائی ميں امريکا کو کيا دشواری پيش آنے کا انديشہ ہو سکتا ہے

    گاہے بگاہے ايسی معلومات کا افشاء امريکی ڈيفنس سٹريٹيجی کا حصہ ہے

    ميرے تجربہ کے مطابق ان معلومات کا افشاء بڑی بات نہيں ہے بلکہ ديکھنا يہ ہے کہ اس سے امريکا کيا حاصل کرنا چاہتا ہے ؟ ہماری حکومت کا ردِ عمل شديد ہونا چاہيئے تھا اور ساتھ ہی سوال اُٹھانا چاہيئے تھا کہ امريکا کے بڑی تعداد ميں عام شہريوں کو بلاجواز ہلاک کرنے کی وجہ سے پاکستان پچھلے پانچ سال سےدہشتگردی کا شکار ہے اور اربوں ڈالز کا نقصان اُٹھا چکا ہے مگر ہمارے حکمران زرخريد غلام ہيں امريکا کے اسلئے اونچا بولنے سے ڈرتے ہيں ۔
    ايک بہت اچھا موقع جو امريکا نے اتفاق سے مہياء کيا تھا ہمارے حکمرانوں نے گنوا ديا ہے

    Reply

  5. طالوت

    میں افتخار اجمل بھوپال کی رائے سے متفق ہوں ۔
    وسلام

    Reply
    1. عین لام میم

      جی ہاں مجھے بھی آپ کی بات سے تقریباً اتفاق ہے۔۔۔۔
      لیکن بہرحال اس طرح کی چیزیں عوام میں مقبول تو ہوتی ہیں۔۔۔۔

      Reply

  6. اکانوے ہزار صفحات تو بہت ذیادہ ہیں۔ یہ امریکی فوج کیا افغانستان میں‌بلاگنگ کر رہی ہے :)

    باقی اس وکی لیکس سے مجھے بھی بہت خطرہ ہے۔ کسی دن یہ میرے بلاگ کے پوسٹ ڈرافٹ نہ شائع کردیں۔

    Reply
    1. عین لام میم

      ابھی تو پندرہ ہزار روک بھی دی ہیں۔۔۔۔۔
      اگر تمہاری ڈرافٹ پوسٹیں لیک کر دیں تو پھر تمہیں بھی ’ڈو مور‘ کرنا پڑے گا۔۔۔۔ آتا ہے ناں یہ؟

      Reply

تبصرہ کیجئے

بے فکر رہیں، ای میل ظاہر نہیں کیا جائے گا۔ * نشان زدہ جگہیں پُر کرنا لازمی ہے۔ آپکا میری رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، لیکن رائے کے اظہار کیلئے شائستہ زبان، اعلیٰ کردار اور باوضو ہونا ضروری ہے!۔ p: